احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
دربار معلی نے مسلمانوں کے اس متفقہ اور جائز احتجاج کو قبول فرماکر حکم دیا کہ یقینا اس مقدمہ کا فیصلہ شریعت الٰہیہ کے مطابق ہونا چاہئے اور فریقین کو موقع دینا چاہئے کہ وہ اپنے اپنے مشہور او رمستند علماء کی مذہبی شہادت عدالت میں پیش کریں۔ چنانچہ وہ مقدمہ پھر ابتدائی عدالت میں واپس آیا اور بحکم سرکار، شریعت کے مطابق مقدمہ کی تحقیقات شروع ہوئی اور فریقین کو عدالت نے نوٹس دیا کہ اپنے اپنے علماء کو عدالت میں پیش کر کے شرعی دلائل بیان کرائیں۔ یہاں تک مقدمہ کو پہنچتے پہنچتے کئی سال ہوگئے اور اب یہ مقدمہ بجائے شخصی معاملہ کے قومی حیثیت میں آگیا۔ (اور آنا ہی چاہئے تھا) انجمن مؤید الاسلام بہاولپور نے اس کی باگ اپنے ہاتھ میں لی۔ حضرت شیخ الجامعہ نے جو ریاست کے مذہبی امور کے گویا صدر الصدور ہیں۔ مشاہیر علمائے اسلام کو جو فرقہ غلمدیہ کے اباطیل سے کافی واقفیت رکھتے تھے۔ اس اہم مذہبی خدمت کی دعوت بھیجی۔ حضرت والدی الماجد دامت برکاتہم کے نام بھی موصوف کا دعوت نامہ پہنچا۔ مگر چونکہ آپ اب سفر کرنے سے فی الجملہ معذور ہیں اور ان دنوں مزاج مبارک بھی ناساز تھا۔ اس لئے تشریف نہ لے جاسکے۔ لیکن دوسرے اکابر واماثل پہنچ گئے اور چھ حضرات نے عدالت کے سامنے یکے بعد دیگرے شہادت دی۔ حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب، شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن صاحب صدر المدرسین مدرسہ امدادیہ مراد آباد، حضرت مولانا نجم الدین صاحب پروفیسر اورینٹل کالج لاہور، حضرت مولانا محمد شفیع صاحب مفتی دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا ابوالقاسم محمد حسین صاحب مولوی فاضل پنجاب یونیورسٹی ساکن کولوتارڑ ضلع گوجرانوالہ۔ ان حضرات کی شہادتوں کا خلاصہ یہ تھا کہ مرزاغلام احمد قادیانی اور اس کے متبعین کا فرو مرتد ہیں۔ ان کے ساتھ مناکحت حرام ہے اور بعد نکاح اگر کوئی شخص مرزائی ہو جائے۔ (والعیاذ باﷲ منہ) تو وہ نکاح بغیر قضائے قاضی فسخ ہو جاتا ہے اور اس کی منکوحہ کو دوسری جگہ نکاح کر لینا درست ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے کافر مرتد ہونے کے پانچ وجوہ بیان کئے گئے۔ اوّل… اس نے اپنے اوپر وحی نازل ہونے کا دعویٰ کیا۔ دوم… اس نے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ سوم… اس نے حضرت ابنیاء علیہم السلام کی حتیٰ کہ حضرت سید الانبیائﷺ کی شان میں سخت گستاخیاں کیں۔