احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
احیائ‘‘ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچائی پر مرے اور یہ مراد لینا کہ جو کافروں کے مقابلہ میں لڑائی میں مارے گئے غلط اور حاسدانہ خیال ہے۔ مراد یہ ہے کہ جیسے سچائی زندہ رہتی ہے۔ اس طرح سچے لوگ مرنے کے بعد زندہ رہتے ہیں۔ یعنی وہ نجات پاتے ہیں ان کو رنج وغم نہیں ہوتا۔ تحریف نمبر:۸ (ص۱۱۳) ’’فقال لہم اﷲ موتوا ثم احیاہم‘‘ مراد مرنے سے حقیقتاً مرنا نہیں بلکہ بری حالت میں رہنا پھر اچھی حالت میں ہوجانا ہے۔ تحریف نمبر:۹ ’’مما ترک اٰل موسیٰ‘‘ مراد تابوس سے دل ہے اور مماترک سے مراد فرشتوں کا ان لوگوں کے دل میں اچھی بات ڈالنا۔ تحریف نمبر:۱۰ ’’فاماتہ اﷲ مأۃ عام ثم بعثہ‘‘ مراد حقیقتاً مرجانا نہیں بلکہ اس قوم کا تنزل میں ہونا اور بعثت سے مراد پھر ترقی ہونا۔ تحریف نمبر:۱۱ ’’رب ارنی کیف تحیی الموتیٰ‘‘ مراد موتی سے قوم تنزل میں پڑی ہوئی اور تحیی سے مراد ترقی پر آنے والی۔ مراد یہ کہ ابراہیم نے تنزل میں پڑی ہوئی قوم کے لئے ترقی کا سوال کیا جواب میں کہاگیا کہ چارچڑیاں پالی جائیں اور مختلف پہاڑوں پر رکھی جائیں تو وہ مالک کے پاس بلانے سے دوڑ کر آتی ہیں۔ اسی طرح قومیں بھی اﷲ کو مالک سمجھیں گی تو وہ ترقی پر آجائیںگی اور چار چڑیوں کو مار کر ٹکڑے کر کے پہاڑ پر رکھنا پھر ان کو بلایا تو زندہ ہوکر چلی آئیں۔ یہ سب غلط ہے۔ تحریف نمبر:۱۲ (ص۱۵۱) ’’وجدا عندہا رزقا‘‘ مراد اس سے کوئی فوق العادت بات نہیں ہے۔ پجاری لوگ تحفہ لایا کرتے تھے۔ خدا کی مہربانی سے وہ تحائف حضرت مریم پاتی تھیں۔ اس لئے خدا کی طرف نسبت کردی۔ فائدہ: پھر معلوم نہیں حضرت زکریا نے کیوں تعجب سے پوچھا کہ ’’یا مریم انی لک ہذا‘‘ اے مریم یہ رزق کہاں سے آیا؟