احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مسلمانوں سے اپیل کی کہ انگریزی میں کوئی عمدہ ترجمہ قرآن شریف کا نہیں ہے۔ اگر مسلمان معقول رقم چندہ کی فراہم کردیں تو ہم اس کا انتظام کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو اطمینان دلایا گیا کہ اس ترجمہ میں کوئی اختلافی بات نہ ہوگی اور مرزایا مرزائیت کی کسی بات کو اس میں دخل نہ ہوگا۔ مسلمان مطمئن ہوگئے اور انہوں نے بڑی فراخ دلی سے چندہ دیا۔ صرف رنگون سے تقریباً سولہ ہزار روپیہ دیا گیا۔ مرزائیوں نے اس ترجمہ کو لندن میں چھپوایا اور خوب گراں قیمت پر فروخت کیا۔ خیر! یہ تو سب ہوچکا۔ لیکن جب وہ ترجمہ دیکھا گیا اور سرتاپا مرزا کی کفریات سے لبریز نکلا اور دیباچہ میں یہ تصریح بھی ملی کہ ترجمہ کرنے والے نے مرزاغلام احمد قادیانی سے ترجمہ کے مطالب کا استفادہ کیا ہے تو اب بتلائیے کہ کیسے صبر کیا جائے۔ کیا یہ صریح خیانت نہیں ہے؟ اور کیا اس خیانت کے بعد بھی اب کوئی عقلمند خواجہ کمال الدین کے اس فریب میں آسکتا ہے کہ ہم ولایت میں تبلیغ اسلام کریںگے۔ ہمیں چندہ دو۔ ہم اپنی تبلیغ میں مرزائیت کی اشاعت نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ترجمہ قرآن شریف کا بہت کوشش سے دستیاب ہوا۔ اگر پورے ترجمہ کی حالت ظاہر کی جائے تو بہت طول ہو۔ اس لئے حسب ذیل چند باتوں پر کفایت کی جاتی ہے۔ تحریف نمبر:۱ دیباچہ ص۹۴ میں (سرچشمہ تحریف کا پتہ دیتے ہوئے) لکھتے ہیں۔ ’’اور بالآخر موجودہ زمانے کے سب سے بڑے رہبر مرزاغلام احمد ساکن قادیان نے میرے دل کو ان سب باتوں سے منور کیا ہے جو اس ترجمہ میں سب عمدہ ہیں۔ میں نے پورا گھونٹ اس چشمہ علم سے پیا ہے جو اس بڑے مصلح، موجودہ صدی کے مجدد، مہدی اسلام اور قائم کنندہ تحریک احمدیت نے جاری کیا ہے۔‘‘ تحریف نمبر:۲ (سورۂ بقرہ ص۲۶) آدم علیہ السلام زمین پر پیدا کئے گئے اور جنت میں رکھنے سے مراد یہ ہے کہ وہ آرام سے رکھے گئے اور شیطان نے ان کو بہکایا اور جنت سے نکالے گئے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ شیطان ان کی حالت میں تبدیلی کا سبب ہوا۔ پھر وہ تکلیف میں رہنے لگے۔ مراد جنت سے زمین پر ایک باغیچہ ہے۔ ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جن تھا۔ اس سے برائی کی طاقت ظاہر کرنا مقصود ہے۔ ابلیس اور شیطان دونوں ایک ہی معنی کے واسطے آتا ہے۔ قرآن لفظ ابلیس کو اس جگہ استعمال کرتا ہے جہاں برے شخص کی برائی محدود رہے اور شیطان کا لفظ اس موقع پر استعمال کرتا ہے جہاں