احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
دیگر حضرات نے جیسے عمران بن حصین اور نافع بن عینیہ اور حضرت ابوبرزہ اور حضرت حذیفہ بن اسید اور ابوہریرہ اور حضرت کیسان اور حضرت عثمان بن ابی العاص اور حضرت جابر اور حضرت ابوامامہ وابن مسعود اور حضرت عبداﷲ بن عمرو اور حضرت سمرہ بن جندب اور حضرت نواس بن سمعان اور حضرت عمرو بن عوف اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اﷲ عنہم سے حدیثیں منقول ہیں۔} فائدہ: یہ سولہ صحابہ ہیں جو رسول خداﷺ سے حضرت مسیح علیہ السلام کا زندہ ہونا اور دوبارہ زمین پر آنا روایت کررہے ہیں۔ مرزاقادیانی کو ان اصحاب کرام پر بڑا غصہ ہے۔ تونہیں انبیاء کی بحث میں ہم نقل کرچکے ہیں کہ اس دریدہ دہن بے تمیز نے کیسی گستاخیاں خاصان خدا کی شان میں کی ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کی حدیثیں حد تواتر کو پہنچ گئی ہیں۔ ابن کثیر محدث اپنی تفسیر(ج۷ ص۱۶۳) میں لکھتے ہیں۔ ’’وقد تواترت الاحادیث عن رسول اﷲﷺ انہ اخبر بنزول عیسیٰ علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماماً عادلاً‘‘ {یعنی متواتر حدیثیں رسول خداﷺ سے منقول ہیں کہ آپ نے خبر دی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے سردار منصف ہوکر نازل ہوںگے۔} علامہ شوکانی اپنی کتاب توضیح میں لکھتے ہیں: ’’وجمیع ما سقناہ بالغ حد التواتر کمالا یخفی علی من لہ فضل اطلاع فتقرر بجمیع ما سقناہ فی ہذا الباب ان الاحادیث الاواردۃ فی المہدی المنتظر متواترۃ والاحادیث الواردۃ فی نزول عیسیٰ متواترۃ‘‘ {یعنی سب وہ روایتیں جو ہم نے بیان کیں حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔ چنانچہ جس کومزید اطلاع کتب حدیث پر ہے۔ اس سے یہ بات پوشیدہ نہیںہے۔ پس ہماری اس تمام تقریر سے جو باب ہذا میں ہے یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام مہدی کے متعلق حدیثیں متواتر ہیں اور نزول عیسیٰ کے متعلق حدیثیں متواتر ہیں۔} مرزاقادیانی نے ان بیشمار احادیث کا جواب یہ دیا ہے کہ میں صاحب وحی ہوں۔ مجھے اختیار ہے جس حدیث کو چاہوں رد کردوں۔ خصوصاً جو حدیث میری وحی کے خلاف ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ جس قدر مباحث اس رسالہ میں مقصود تھے۔ سب باحسن وجوہ پورے ہوگئے۔ حق تعالیٰ ذریعہ ہدایت بنائے آمین۔ اب بطور تکملہ کے کچھ تھوڑا سا نمونہ اس ترجمۂ قرآن کا پیش کیا جاتا ہے۔ جو خواجہ کمال الدین کی پارٹی نے شائع کیا ہے۔ جس پر ان کو بڑا ناز ہے۔ مرزائیوں کے انگریزی ترجمۂ قرآن مجید کا نمونہ یہ واقعہ بھی کم قابل افسوس نہیں ہے کہ مرزائیوں کی لاہوری پارٹی نے مسلمان بن کر