احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ثابت شدہ امر ہے کہ جس قدر خداتعالیٰ نے مجھ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا ہے اور جس قدر امور غیبیہ مجھ پر ظاہر فرمائے ہیں۔ تیرہ سو برس ہجری میں کسی شخص کو آج تک بجز میرے یہ نعمت عطاء نہیں کی گئی۔ اگر کوئی منکر ہو تو بار ثبوت اس کی گردن پر ہے۔ غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس امت میں سے میں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں گذر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں۔‘‘ طریق سوم اب ہم ایک تیسرے طریقہ سے مرزاقادیانی کا مدعی نبوت حقیقتاً ہونا ثابت کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ مرزاقادیانی نے اپنے کو تمام انبیاء سے حتیٰ کہ حضرت محمدﷺ سے بھی افضل کہا۔ اگر مجازی نبوت کے مدعی ہوتے تو حقیقی انبیاء سے اپنے کو افضل نہ کہتے۔ ۸… (دافع البلاء ص۱۳، خزائن ج۱۸ ص۲۳۳) میں ہے: ’’خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے اور اس نے اس دوسرے مسیح کا نام غلام احمد رکھا۔‘‘ ۹… (حقیقت الوحی ص۱۴۸، خزائن ج۲۲ ص۱۵۲) میں ہے: ’’خدا نے اس امت میں مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر ہے۔ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کرسکتا ہوں وہ ہرگز نہ کرسکتا۔ وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہو رہے ہیں وہ ہرگز نہ دکھلا سکتا۔‘‘ ۱۰… (حقیقت الوحی ص۱۴۹، ۱۵۰، خزائن ج۲۲ ص۱۵۳) میں ہے: ’’اوائل میں میرا بھی یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح بن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی ہے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے ہے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کی نسبت ظاہر ہوتا تو میں اس کو جزئی فضیلت قرار دیتا تھا۔ مگر بعد میں جو خداتعالیٰ کی وحی بارش کی طرح میرے پر نازل ہوئی اس نے مجھے اس عقیدہ پر قائم نہ رہنے دیا اور صریح طور پر نبی کا خطاب مجھے دیا گیا۔‘‘ فائدہ: اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مرزاقادیانی حضرت مسیح علیہ السلام پر اپنے کو فضیلت کلی دے رہے ہیں۔ لہٰذا اب اس کہنے کی گنجائش نہ رہی کہ فضیلت جزئی تو غیر نبی کو بھی نبی پر ہو سکتی ہے۔