احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
تمہارے لئے موجب برکت اور ایک امت کا نشان ہوگا اور ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پاؤگے۔ جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۸ء میں درج ہیں۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے اڑھائی سال تک اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیانی زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہت اور غم کے امر پیش آئیںگے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۸) پھر مرزاقادیانی (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳، خزائن ج۱۱ ص۳۳۷) میں لکھتے ہیں: ’’چاہئے تھا کہ ہمارے نادان مخالف اس پیشین گوئی کے انجام کے منتظر رہتے اور پہلے ہی سے اپنی بدگوہری ظاہر نہ کرتے۔ بھلا جس وقت یہ سب باتیں پوری ہو جائیں گی تو اس دن یہ احمق مخالف جیتے ہی رہیںگے اور کیا اس دن یہ تمام لڑنے والے سچائی کی تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوجائیںگے۔ ان بیوقوفوں کو کوئی بھاگنے کی جگہ نہیں رہے گی اور نہایت صفائی سے ناک کٹ جائے گی اور ذلت کے سیاہ داغ ان کے منحوس چہروں کو بندروں اور سوروں کی طرح کر دیںگے۔‘‘ پھر محمدی بیگم کے نکاح ہو جانے کے بعد جب مرزاقادیانی پر اعتراض ہوا کہ محمدی بیگم دوسری جگہ کیوں بیاہی گئی تومرزاقادیانی الحکم مورخہ ۳۰؍جون میں حسب ذیل جواب دیتے ہیں۔ ’’وحی الٰہی میں یہ نہیں تھا کہ دوسری جگہ بیاہی نہیں جائے گی۔‘‘ پھر مرزاقادیانی نے (شہادت القرآن ص۸۱، خزائن ج۶ ص۳۷۶) میں یہ بھی تصریح کر دی کہ یہ پیشین گوئی دراصل چھ پیشین گوئیوں پر شامل ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔ ’’ان میں وہ پیشین گوئی جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتی ہے بہت ہی عظیم الشان ہے۔ کیونکہ اس کے اجزاء یہ ہیں۔ ۱… مرزااحمد بیگ ہوشیار پوری تین سال کی میعاد کے اندر فوت ہو۔ ۲… پھر داماد اس کا جو اس کی دختر کلاںکا شوہر ہے اڑھائی سال کے اندر فوت ہو۔ ۳… اور پھر یہ کہ مرزا احمد بیگ تاروز شادی دختر کلاں فوت نہ ہو۔ ۴… اور پھر یہ کہ وہ دختر بھی تانکاح اور تاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی کے فوت نہ ہو۔ ۵… اور پھر یہ عاجز بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت نہ ہو۔ ۶… پھر یہ کہ اس عاجز سے نکاح ہو جائے۔ مرزاقادیانی (انجام آتھم ص۳۰، خزائن ج۱۱ ص۳۱) میں لکھتے ہیں۔ ’’میں باربار کہتا ہوں کہ نفس پیشین گوئی داماد احمد بیگ کی تقدیر مبرم (یعنی کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں) اس کی انتظار