واقعات صدیق |
اقعات ِ |
کوشش میں لگا رہا کہ کسی طرح یہاں ایک مکتب کی شکل ہوجائے ، رفتہ رفتہ کچھ لوگ ہم خیال ہوئے۔ لیکن یہاں آنے کے بعد کھانا وغیرہ کبھی ان کے یہاں نہ کھاتاتھا، اپنا کھانا خود ساتھ لاتا اور وہی کھاتا، آمدورفت کا سلسلہ برابر جاری رہا، اس وقت پورے علاقہ میں بدعت کا زور تھا،اس وقت ایک بدعتی مولوی آتے تھے انکی تقریریں بھی ہوتی تھیں تمام ہدایا تحائف سمیٹ کر لے جاتے تھے، میری مخالفت بھی شروع ہوئی لیکن میں نے کبھی کسی بات کا جواب نہ دیا، بحث مباحثہ نہیں کیا، خاموشی سے کام کرتا رہا، کچھ اپنے لوگ بھی تیار ہوگئے تھے، ان کی بھی مخالفت ہونے لگی میں نے ان سے کہا کہ اپنا کام کئے جاؤ ان سے مزاحمت ہرگزنہ کرنا، مقابلہ کبھی نہ کرنا، بحث مباحثہ بھی نہ کرنا، وہ جو کریں کرنے دینا۔رفتہ رفتہ انشاء اللہ سب ٹھیک ہوجائے گا ان لوگوں نے مدرسہ کی بنیادڈال دی تھی، مدرسہ کئی بار بند ہوا پھر کھلا، اس طرح سلسلہ چلتا رہا، مسجدمیں سلام بھی ہوتا تھا، میں نے اپنے لوگوں کو اسکی مخالفت سے بھی منع کردیا تھا، اور میں خود برابر جاتا رہا لوگوں سے ملاقات کرتا رہا، اللہ کا شکر ہے کہ اب صورتحال یہ ہے کہ سارے لوگ اپنے ہیں اپنا مدرسہ بھی چل رہا ہے، بدعت کا زور بھی ختم ہے اوران بدعتی مولوی صاحب کا توآنا ہی بند ہوگیا، اب تو کوئی ان کوجانتا بھی نہیں ۔ مدرسہ اسلامیہ فتح پور سے مستعفی ہونے کے بعد جب حضرت نے علاقہ کا دورہ فرمایا، بہت کم ہی ایسے گاؤں ہوں گے جہاں حضرت اقدس کے قدم نہ پہونچے ہوں ،ان تبلیغی دوروں میں حضرت کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ ہر ہر بستی میں ایک مسجد ومکتب کا قیام ہوجائے یا گاؤں سے کچھ ایسے لڑکے مل جائیں جن پر محنت کرکے ان کو دینی تعلیم دی جائے۔ اور یہ کوشش اخیر عمر تک بلکہ مرتے دم تک جاری رہی وفات سے دور وز قبل بھی قریب کے ایک گاؤں کے سلسلہ میں مسجد و مدرسہ کے قیام کا مشورہ فرمارہے تھے۔ برادر معظم مفتی زید صاحب نے حضرت سے استفسار فرمایا کہ حضرت اس زمانہ