واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
پہونچ گئے تھے۔ حضرت اس زمانہ میں فتح پور کے مدرسہ اسلامیہ میں پڑھاتے تھے وہاں باندہ اوراسکے اطراف کی یہ خبریں پہونچتی رہتی تھیں خود سناتے تھے کہ ایک رات کو جب سونے کے ارادے سے لیٹا تو یہ خیال آگیا کہ کل قیامت میں اللہ تعالی مجھ سے یہ سوال نہیں فرمائیں گے کہ تم نے یہ کتابیں پڑھائی تھیں کہ نہیں بلکہ مجھ سے یہ سوال ہوگا کہ تمہارے علاقہ میں ارتداد پھیل رہا تھا لوگ مرتد ہورہے تھے تم نے کیا کیا؟ اس سوال کے ذہن میں آنے سے نیند غائب ہوگئی، ساری رات اسی فکر میں ذہن غلطاں و پیچاں رہا اور ایک منٹ کو بھی نہ سوسکا، لیکن صبح ہونے سے پہلے ہی دل ودماغ نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اب اپنے علاقہ کے لوگوں میں کام کرنا ہے اوران کے ایمان کی فکر کر نی ہے ، پھر اسی ارادہ سے اہل مدرسہ سے اجازت لیکر اپنے یہاں چلاآیا ، شروع میں کام کی صورت یہ تھی کہ ایسے علاقوں کے دیہات میں جہاں ارتداد کی وبا عام ہورہی تھی حضرت ؒ نے تن تنہا دورہ شروع کیا اورجہاں اور جسے دین کی بات کرنے کا موقع ملتا بات کرتے ، اس دورہ کی تفصیلات دریافت کرنے پر حضرتؒ نے فرمایا کہ جو لوگ میری سسرال کے لوگوں سے واقف تھے ان سے ان لوگوں کے حوالہ سے بات شروع کرتا۔ اسی طرح ایک دن میں کئی کئی دیہات گھوم پھر کر دین کی بات ان لوگوں کو پہونچایا کرتا تھا سوال کے جواب میں یہ بھی فرمایا کہ رات کا قیام کبھی کسی کھلیان میں کبھی کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر بھی کرنا پڑتا تھا اس طرح کام کرتے ہوئے کئی مہینے گذر گئے تو محسوس ہوا کہ مدرسہ کی ضرورت ہے جسے اس کام کے مرکز کے طورپر استعمال کیا جائے اوران لوگوں کے بچوں کو وہاں پڑھانے کے لئے لے جایا جائے۔ مدرسہ کی تجویز حضرت ؒ نے باندہ اوراسکے قرب و جوار کے لوگوں کے پاس جاجاکر رکھی، بعض حضرات سے بڑی امیدیں وابستہ کرکے ان کے پاس گئے لیکن اس کام کے نام سے ہی سب کانوں پر انگلیاں رکھ لیتے تھے لوگوں نے یہ تک کہا صدیق!یہاں جان کے لالے پڑے ہیں اور تم مدرسہ کی بات کرتے ہو۔ بالآخر ہر طرف