واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
برس کی ہوگی جس وقت میں فتح پور پڑھانے گیا تھا، مجھ کوشروع ہی میں بڑی کتابیں پڑھانے کو مل گئی تھیں لوگوں کواس سے بڑا تعجب ہوتا تھا اس وقت میرا حافظہ بہت اچھا تھاسبق میں خوب تقریر کرتا تھابعض لوگ چھپ کر میرا سبق سنتے تھے، مولانا عبدالوحید صاحبؒ (مہتمم مدرسہ) بھی سنا کرتے تھے بعد میں لوگوں نے کہا کہ جیسا سنا تھا اس سے کہیں زائد پایا اس وقت سب سے زائد کتابیں میں ہی پڑھاتا تھا، اور کتابیں بھی سب بڑی تھیں اگرچہ تنخواہ میری سب سے کم تھی یعنی تیس روپئے۔ ٭صبح سے شام تک پڑھانے کے سواکچھ کام ہی نہ تھا، مدرسہ سے باہر نکلنے کی بھی نوبت کم آتی، اگر کبھی مدرسہ کے باہر کسی ضرورت سے جانا ہوتا تو لوگ تعجب کی نگاہ سے دیکھتے کہ آج کوئی خاص بات ہے یہ باہر کیوں آئے ہیں ۔ مولانا جامی صاحب (جو مدرس تھے)میرے بے تکلف دوستوں میں سے ہیں لیکن ان سے بھی زیادہ باتیں نہ ہوتیں وہ اپنے کام میں لگے رہتے میں اپنے کام میں لگا رہتا۔ شہر میں بھی دیگر لوگوں سے تعلقا ت نہیں تھے ۔ ملاقات بھی کم ہوتی تھی ، لوگ جانتے بھی نہ تھے۔ اسی لئے بیاہ شادی یا کسی خوشی کی دعوت میں کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا، فتح پور کے قیام کے زمانہ میں مجھے یاد نہیں پڑتا کہ دعوت وغیرہ کی نسبت سے کبھی مدرسہ سے باہر جانا ہوا ہو، ایسے تعلقات ہی نہ تھے۔ ٭ فتح پور سے باندہ،اپنی والدہ کی خدمت و خبر گیری کیلئے وقتا فوقتا تشریف لاتے شادی ہوچکی تھی اہلیہ بیمار رہتی تھیں ۔حضرت ان کو اپنے ساتھ فتح پور میں ایک کرایہ کے مکان میں رکھتے کبھی ہتھورا لے آتے ان کے علاج وبیماری سے حضرت کو پریشانی ہوتی بسا اوقات قرض سے زیر بار ہوجاتے۔ ایک مرتبہ مدرسہ سے بیس روپیہ قرض لیا تھا، جو تنخواہ ملتی اسی میں سے والدہ پر بھی خرچ کرتے تھے بلکہ خود تنگی برداشت کرلیتے لیکن والدہ کو راحت پہنچانے کا اہتمام کرتے۔ ٭آپ کی تنخواہ کی قلت اور تنگی کی بناپر ایک مرتبہ مدرسہ کے ذمہ دارمولانا