واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
ہے، اس زمانہ میں وہاں سے ہتھورا کیلئے پکا راستہ نہیں تھا، وہاں پر حضرت والا کے ساتھ وہ ڈکیت بھی اتر گئے۔ ، سورج غروب ہوچکا تھا، جب گاڑی وہاں سے روانہ ہوگئی، تو ڈکیتوں نے تنہا پاکر حضرت والا کو گھیر لیا، حضرت والا نے کہا کہ بھائی میرے پاس اپنا ذاتی کوئی پیسہ نہیں ہے۔ مدرسہ کے طلبا کا پیسہ ہے ۔ مگر ڈاکوؤں نے زبردستی شروع کردی تو حضرت نے اطمینان سے رقم نکال کر دیدی، تووہیں ان کی آنکھیں اندھی ہوگئیں ، ہاتھ پیر شل ہوگئے، صبح تک وہیں پڑے رہے، اور حضر ت مدرسہ خالی ہاتھ پہنچ گئے۔ تہجد کے بعد دو ہوشیار طالب علم سے فرمایا کہ جاؤ ’’ نومیل‘‘ میں کچھ مہمان ہیں ان کو لے آؤ۔ جب طلباء نے وہاں پہنچ کر کہا کہ آپ لوگوں کو حضرت بلارہے ہیں ۔ ہتھوڑا کی طرف جب وہ لوگ چلنے لگے تو نظر بھی آنے لگا، ہاتھ پیر بھی کام کرنے لگے، مدرسہ پہنچتے ہی ان لوگوں نے رقم واپس کردی اورحضرت نے بہت اخلاق کے ساتھ ان کو کمرہ میں ناشتہ کروایا اور ان لوگوں نے توبہ کرلی۔اس وقت حضرت اقدس مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی نور اللہ مرقدہ کا قیام جامع العلوم کانپور میں تھا۔ حضرت مفتی صاحبؒ حضرت کے استاذ بھی تھے اور راز داں و مشیر بھی۔ اس رقم کے حصول میں حضرت مفتی صاحب نے کوشش فرمائی تھی اس واقعہ کو حضرت والا تو چھپانا چاہتے تھے لیکن حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہر بات چھپانے کی نہیں ہوتی۔ چنانچہ باندہ کی جامع مسجد میں جمعہ میں دوران تقریر حضرت مفتی صاحب نے اسکوظاہر فرمادیا۔ جسکا پورے علاقے میں بہت اچھا اثر پڑا۔ ایک دفعہ اتفاق سے حضرت نے خاکسار سے بیان فرمایا کہ اس رقم کی مقدار چار ہزار روپیہ تھی (اس وقت یہ رقم بہت تھی۔ ) اور ہتھوڑا کے دارقدیم کے آٹھ دس کمرے اس سے بن گئے تھے۔