واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
کرڈالیں ، لیکن شفاء نہیں ہوئی میں چونکہ بھوانی پور جاتارہتا تھا، جو مسلمان اس راجہ کے یہاں کام کرتے تھے وہ مجھے جانتے تھے، ملاقات ہوتی رہتی تھی، انہوں نے راجہ سے کہہ دیا کہ ایک ہمارے مولانا جی ہیں بہت اچھی دعاء تعویذ کرتے ہیں ، بہتوں کو فائدہ ہوا ہے ان کا علاج کرنے سے فائدہ کی امید ہے چنانچہ چند آدمی مجھ کو لینے آئے میں وہاں پہنچا اور راجہ سے اچھی طرح ملا، میں کوئی عامل تو ہوں نہیں نہ مجھے کچھ آتا ہے اور نہ ہی میں اس مشغلہ کوپسند کرتا ہوں ، حضرت ناظم صاحب (حضرت کے پیر مولانا اسعداللہ صاحبؒ) نے فرمایا تھا کہ کوئی تعویذ مانگنے آئے تو انکار مت کرنا جو سمجھ میں آئے لکھ کر دے دیا کرنا، چنانچہ جو کچھ میری سمجھ میں آیا لکھ کر دے دیا ، اللہ نے اسکو شفاء دیدی اس سے وہ بہت متاثر ہوا، کیونکہ بہت پریشان ہوچکاتھا، خوش ہوکر اس نے اپنے ملازمین سے کہا کہ مانگو کیا مانگتے ہو، وہ لوگ میرے پاس آئے میں نے ان سے کہا کہ یہ کہہ دینا کہ سرکار سب کچھ تو آپ نے ہم کو دے دیا، زمین مکان سب کچھ تو آپ نے ہم کو دے دیا،کسی چیز کی کمی نہیں ہے، البتہ اپنے مالک کی عبادت کرنے اورنماز پڑھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے اس لئے حضور والا اگر مسجد کے لئے کوئی جگہ دیدیں اورمسجد بنوادیں تو ہم لوگوں کی یہ مشکل بھی دور ہوجائے، چنانچہ ان لوگوں نے راجہ کے سامنے یہی بات رکھی، اتنا کہنا تھا کہ راجہ سکتہ میں آگیا خاموش ہوگیا، کچھ نہ بولا لیکن زبان دے چکا تھا اسلئے انکار بھی نہ کرسکا، مسجد کے لئے زمین دے دی اور کہا کہ اپنے مولاناجی کو اور جس کو بلانا ہو بلالو بنیاد رکھ دیں ، چنانچہ میں پہونچا اور راجہ کو بھی بلوایا، بنیاد کھو دی گئی، اینٹ رکھ دی گئی، دعا ہوگئی راجہ نے کہا بس ہوگیا، میں نے کہا بس راجہ نے گالی دے کر کہا کہ کم بختوں نے مجھ سے کہا تھا کہ مسجد بنانے سے پہلے مسلمان گائے ذبح کرتے ہیں اسکا خون اس میں ڈالتے ہیں ، مجھ کو دھوکہ میں رکھا، اورپھر خود ہی اس نے مسجد بنوائی، گرمیوں کی تیز دھوپ میں خود کھڑے ہوکر مسجد بنوایا کرتا تھا، الحمدللہ وہ مسجد اب بھی بھوانی پور میں موجود ہے۔ (حیات صدیق ، ص:۱۶۰، ج۱)