واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
تھا اس پر تیار کیا کہ میں حضرت کو ایر کنڈیشنڈ گاڑی دینا چاہتا ہوں تم منظور کرادو، تو تمہارے مدرسہ کو بھی میں ایک بڑی رقم دوں گا۔ وہ حضرت کے ساتھ لگ گئے، حضرت نے تو پہلے ان سے فرمایا یہ بتاؤ کہ تمہاری کتنی رشوت طے ہوئی ہے؟ یہ سن کر وہ صاحب بالکل سوکھ گئے مگر بات کو گھمایا اور اصرار کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ایک نعمت ہے اس کو نہ ٹھکرائیں تو فرمایا: ’’چھوڑ و یارنہ جانے کیسا مال ہو‘‘ وہ صاحب کہتے تھے کہ حضرت کے اس جملے نے حضرت کے لئے بات دل سے نکال ہی دی ، میری دل میں اپنے مدرسہ کے لئے جو خیال تھا وہ بھی اس کی وجہ سے نکل گیا۔ اور حضرت کے اس جواب سے یہ بات سامنے آئی کہ حضرت کے سامنے ان معاملات میں اس قسم کے پہلو بھی رہتے تھے اور واقعہ یہ ہے کہ ان چیزوں کا سامنے رکھنا بھی ضروری ہے اس لئے کہ آج کل لوگ محبت و عقیدت میں ہدایا وغیرہ کی پیشکش کرکے اپنی خرافات میں بڑوں کو بھی شریک کرلیا کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت نے فرمایا: ’’بعض لوگ انتقال کے بعد میت کے ترکہ سے اس کی بعض چیزیں خصوصا مصلٰی ولوٹا وچوکی وغیرہ کسی مدرسہ میں دیدیتے ہیں اوراسکو بڑے ثواب کا کام سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سراسر ناجائز ہے۔ اور پھر اس ضمن میں اپنا معمول بھی سنا یا اور قصہ بھی کہ ایک مرتبہ ایک صاحب میرے پاس اس قسم کی ایک بڑی رقم لے کر آئے میں نے مسئلہ بتاکر رقم واپس کردی ، تو وہ صاحب کہنے لگے، مولانا بڑی رقم ہے اس کو رکھ لیجئے،میں نے واپس کردیا اور میرا ہمیشہ سے معمول ہے کہ میں اس قسم کے سامان اور اس نوع کی رقم کو واپس کردیتا ہوں ۔