واقعات صدیق |
اقعات ِ |
|
واقعی حضرت کا عجب حال تھا اور اس واقعہ میں تو کئی سبق آموز پہلو اور تواضع در تواضع کی بات ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت عالمانہ وضع ولباس میں تو رہتے ہی تھے مگر سادگی کے ساتھ معمولی لباس و کپڑوں میں ، آنے والے کے ذہن میں شہرت کے حساب سے جو خاکہ تھا اور جو کچھ انہوں نے دوسری جگہوں میں دیکھا تھاحضرت کا نقشہ اس سے بالکل مختلف تھا، اس لئے ان کو خیال بھی نہ گذرا کہ یہ صاحب ہی ہمارا مطلوب ہیں ، اس درجہ لباس کی سادگی خود یہ ہی حضرت کی ایک قسم کی تواضع تھی۔ پھر اس کے بعد نہ صرف یہ کہ نام نہیں بتایا، بے تکلف سامان بھی لادلیا، ظاہر ہے کہ انہوں نے گاؤں کا ایک مزدور صفت آدمی اورایک دیندار مسلمان سمجھا جس نے حضرت کی عقیدت و محبت میں حضرت کے ایک مہمان کا سامان اٹھالیا یہ ایک قصہ یا اس انداز کے دو چار قصے وہ ہیں جو روایتوں وذہنوں میں محفوظ ہیں ورنہ تو نہ جانے کتنے اس طرح کے قصے ہوں گے اور ایسی جگہوں کے جہاں حضرت کی شخصیت اور حیثیت کی بات جلد کھلی ہی نہ ہوگی۔ آنے والے مہمان کے لئے جو بسا اوقات غیر عالم بھی ہوتے مگر محب علماء اپنا رومال بچھانا، مصلی لے کر جانا اوراس کے لئے بچھانا اور بستر و چادر وغیرہ کرنا یہ سب تو ہوتا ہی تھا اس سے بڑھ کر سنئے۔ ہتھورا کے قریب ایک دیہات میں ایک ذی حیثیت خاں صاحب رہتے تھے انہوں نے اپنا قصہ سنایا کہ میں نے مولانا صدیق احمد صاحب کا غائبانہ نام سنا تھا، ان سے ملاقات نہیں تھی، اور نہ ان سے (خاص) عقیدت ہی تھی ایک بار ان سے ملاقات کے لئے چلا، نو میل پر بس سے اترا تو مولانا صاحب مل گئے نومیل سے ہتورا تک کچی سڑک تھی اتفاق سے بارش ہوئی تھی تو کیچڑ تھا۔ (اور اس علاقے کی مٹی بھی عجیب سی ہے) میرا بدن بھی بھاری بھرکم تھا،مولانا صاحب نے میراسامان اٹھالیا اورمیرے جوتے بھی اٹھالئے اوراپنے ساتھ مجھے لے کر چل پڑے، اب میرے لئے بڑی ندامت کا موقع