احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
کہ خدا کا سچا ۱؎ وعدہ ہے۔ وہی خدا جس کی باتیں نہیں ٹلتیں۔‘‘ ۱؎ اے عزیز یہ کہنا رہ گیا اس لئے حاشیہ لکھتا ہوں۔ میں نے تین قول مرزاقادیانی کے نقل کئے ہیں۔ انہیں میں غور کرنے سے مرزاقادیانی کے سچے جھوٹے ہونے کا فیصلہ ہوجاتا ہے۔ پھر کوئی بات لگی نہیں رہتی۔ آخر کے دونوں قول میں خوب غور کرو ان سے وہ سب باتیں غلط ہوجاتی ہیں جو اس غلط پیشین گوئی کے جواب میں بنائی جاتی ہیں۔ (۱)دیکھو کہتے ہیں کہ یہ خدا کا سچا وعدہ ہے۔ یعنی ان وعدون میں سے نہیں ہے جو کسی وجہ سے جھوٹے ہو جاتے ہیں۔ بلکہ ان باتوں میں ہے جو بدلتی نہیں۔ اس لئے اس کا پورا ہونا ضرور ہے۔ اب اس کے لئے کوئی مانع مرزاقادیانی کے قول کے بموجب نہیں ہوسکتا۔ (۲)اور دیکھو! لکھتے ہیں کہ اگر احمد بیگ کا داماد میرے سامنے نہ مرا تو میں ہر بد سے بدتر ٹھہروںگا۔ اب تم غور کرو کہ کوئی خدا کا رسول اپنی صداقت کے بیان میں بغیر الہام الٰہی اس طرح نہیں کہہ سکتا جس طرح مرزاقادیانی کہہ رہے ہیں اور جب یہ مقولہ بالہام الٰہی ہے تو ہر گز نہیں ہوسکتا کہ وہ عالم الغیب باوجود جاننے موانعات کے مرزاقادیانی کی زبان سے یہ کہلائے کہ اگر یہ پیش گوئی پوری نہ ہوئی تو میں ہر بد سے بدتر ٹھہروںگا۔ جب ایسا کہلایا تو معلوم ہوا کہ اس کے لئے کوئی مانع نہیں ہوسکتا۔ اس کا ظہور ہر طرح ہوگا۔ اب جو باتیں بنائی جاتی ہیں ان سب کو یہ قوم جھوٹا ٹھہراتا ہے اور بالفرض اگر مرزاقادیانی نے غلطی سے ایسا کہا تو ضرور تھا کہ قبل مشتہر ہونے اور مخالفوں تک پہنچنے کے اس کی طرف سے اطلاع ہوتی اور بالفرض اگر غلطی سے مشتہر ہوگیا تھا تو فوراً اس کے بعد ہی اس کی غلطی کو مشتہر کرتے اور تنبیہ الٰہی کو دنیا پر ظاہر کرتے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے بالیقین معلوم ہوا کہ یہ وعدہ الٰہی نہ تھا۔ اس لئے خداتعالیٰ نے اسے جھوٹا کر کے دنیا کو ان کا کاذب ہونا دکھا دیا۔ (۳)پھر دوسرے قول میں دیکھو کہ فارسی میں سخت قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اس پیشین گوئی کا پورا ہونا سچ ہے۔ یعنی اس بات پر قسم کھاتے ہیں کہ احمد بیگ کا داماد میرے روبرو مرے گا اور اس قول کے سچ ہونے کو تو عنقریب دیکھ لے گا۔ میں اس کو اپنے سچے یا جھوٹے ہونے کا معیار قرار دیتا ہوں۔ یہ سب باتیں کہہ کر آخر میں یہ کہتے ہیں کہ: ’’من نہ گفتم الابعدازاں کہ از رب خود خبرد ادہ شدم۔‘‘ یعنی جو میں نے کہا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں کہا۔ بلکہ وہی کہا ہے جس کی اطلاع میرے پروردگار نے مجھے دی ہے۔ تمام باتیں کہہ کر آخر میں یہ جملہ کہنا صاف بتارہا ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ بیان کیاگیا وہ سب الہامی ہے۔ اے عزیز! آنکھیں کھولو اور خدا کا خوف دل میں لاکر دیکھو کہ اﷲتعالیٰ نے کیسے یقین اور پختگی سے وعدہ کیا ہے کہ مرزاقادیانی اس کے پورا ہونے پر قسم کھا رہے ہیں اور اپنے صدق وکذب کا اسے معیار بتارہے ہیں۔ پھر کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی ایسا مانع پیش نشان جس کے ظہور کے لئے سات وجہیں یقین دلاتی ہوں کہ اس نشان کا ظہور ضرور ہوگا اور ایک وجہ ایسی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)