احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
کہا صالح بن احمد نے سنا اس نے اپنے باپ سے کہ ثقہ اور سیدھا تھا حدیث بیان کرنے میں اور کہا ابن معین وابوزرعہ وابوحاتم ومحمد بن سعد اور نسائی اور عجلی نے کہ ثقہ تھا اور ابن سعد نے کہا کہ کثیر الحدیث بھی تھا اور ذکر کیا ابن حبان نے ثقہ راویوں میں۔ ابوصالح الخوزی: ’’وقال ابوزرعۃ لاباس بہ‘‘ (تہذیب التہذیب ج۱۲ص۱۳۱) ابوزرعہ نے کہا کہ اس راوی کی حدیث میں کچھ خطر نہیں۔ جاننا چاہئے کہ اس راوی کو صرف ابن معین نے ضعیف لکھا ہے۔ حالانکہ امام جلال الدین سیوطی جوکہ بقول مرزائی پاکٹ بک ص۶۳۵ نویں صدی کے مجدد تھے نے ابن معین کے متعلق لکھا ہے کہ: ’’ابن معین کذاب‘‘ (موضوعات سیوطی مطبوعہ مصر، کتاب التوحید ج۱ص۱۱) یعنی ابن معین بہت جھوٹا تھا۔ پس ابن معین کی بیان کردہ تصنیف ناقابل اعتبار ثابت ہوئی۔ ۸… ’’یاایھا الناس انہ لانبی بعدی ولاامۃ بعدکم… وانتم تسئلون عنی (مسند احمد ج۲ ص۳۹۱)‘‘ {آنحضرتﷺ نے حجۃ الوداع میں قریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار نفوس کے سامنے فرمایا اے لوگو یاد رکھو کہ اب میری بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ کیونکہ میں آخری نبی ہوں اور تمہارے بعد کوئی امت نہ ہوگی۔ کیونکہ تم آخری امت ہو اور تم کو قیامت کے دن صرف میری نسبت ہی سوال ہوگا۔} ۹… ’’انہ لیس یبقی بعدی من النبوۃ الاالرٔویا الصالحۃ (نسائی، ابوداؤد)‘‘ {حضرت ابوہریرہؓ ے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد سوائے نیک خواب کے نبوت میںسے کچھ باقی نہیں رہا۔} ۱۰… ’’لانبوۃ بعدی (مسلم ج۲ ص۲۷۵)‘‘ {یعنی میرے بعد نبوت ہی ختم ہے۔} مندرجہ بالا دونوں احادیث سے تشریعی، غیر تشریعی اور مرزائیوں کے فرضی ڈھکوسلہ یعنی ظلی بروزی وغیرہ کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ عذر اس لانبوۃ بعدی والی روایت کے چار راویوں میں سے تین ضعیف ہیں۔ (۱)قتیبہ۔ (۲)بکیر بن مسمار الزہری۔ (۳)حاتم بن اسماعیل المدنی۔ (مرزائی پاکٹ بک ۵۴۷)