احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
۲… پھر بدر ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء میں مرزاقادیانی بھی لکھتے ہیں کہ: ’’ثناء اﷲ کے متعلق جو لکھا گیا ہے یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ رات کو الہام ہوا کہ ’’اجیب دعوۃ الداع‘‘ تیری دعاء سنی گئی۔ صوفیا کے نزدیک بڑی کرامت استجابت دعا ہی ہے۔‘‘ (اخبار بدر قادیان ج۶ ش۱۷ ص۷، مورخہ ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ) مرزائی عذر مرزاقادیانی تو آخری دم تک اپنی اسی دعاء کے نتیجہ پر اڑے رہے۔ مولوی ثناء اﷲ نے خود لکھ دیا تھا کہ اس دعا کی منظور ی مجھ سے نہیں لی۔ تمہاری یہ تحریر کسی صورت میں فیصلہ کن نہیں ہوسکتی۔ (احمدیہ پاکٹ بک ص۸۲۶) الجواب مولوی ثناء اﷲ کی قبولیت کا سوال تو جب پیدا ہوتا۔ جب کہ آخری فیصلہ مباہلہ ہوتا۔ مرزاقادیانی نے تو محض دعاء کے طور پر خدا سے فیصلہ چاہا تھا۔ اگر مولوی ثناء اﷲ صاحب کی منظوری اس دعاء میں لازمی ہوتی تو بقول مرزاقادیانی خدا اسے قبول کیوں کرلیتا؟ پھر مرزاقادیانی نے مولانا صاحب کے انکار (جو ۲۶؍اپریل ۱۹۰۷ء کے پرچہ میں کیاگیا تھا) کے بعد ۱۳؍جون ۱۹۰۷ء کے اخبار بدر میں واضح الفاظ میں آخری فیصلہ مباہلہ نہ تھا صرف دعا تھی کیوں لکھا؟ ایڈیٹر بدر اور مرزاقادیانی کے تمام خریداروں نے کیوں اس کی تردید نہ کی۔ اسی طرح مفتی محمد احسن کا آخری فیصلہ کو بعد وفات مرزا محض دعا بتا کر عذر کرنا کہ نبیوںکی بعض دعائیں قبول نہیں ہوا کرتیں۔ (ریویو قادیان ج۷ ش۶،۷ ص۲۸۴، ۱۹۰۸ئ) آخری فیصلہ کو صرف دعا ہی ثابت کیا ہے۔ مرزائی عذر مولوی ثناء اﷲ نے خود اس دعا کو مباہلہ لکھ دیا تھا۔ الجواب مولوی ثناء اﷲ صاحب نے شروع شروع میں اسے دعا ہی فرمایا ہے۔ (دیکھو اخبار اہلحدیث ۲۶؍اپریل۱۹۰۷ء واحمدیہ پاکٹ بک ص۸۲۶ ،۱۹۴۵ئ) البتہ چونکہ مرزا قادیانی بعض دفعہ یک طرفہ دعائوں کا نام بھی مباہلہ رکھ لیا کرتے تھے۔ جیسا کہ (تتمہ حقیقت الوحی ص۸۴) پر حافظ مولوی محمدالدین کی نسبت لکھتے ہیں: ’’اس نے اپنی کتاب