احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
میں متعدد لیکچر آپ نے مختلف مقامات میں دئیے۔ اگرچہ ان لیکچروں میں زیادہ تر انگریزی دان اور وہی لوگ ہوتے تھے جن کو دین ومذہب سے کوئی مضبوط تعلق نہیں اور خواجہ صاحب کی توجہ بھی تمام دولت مندوں ہی کی طرف ہے۔ کیونکہ جس مقصد کے لئے آپ نے رنگون کا دورودراز سفر اختیار کیا ہے وہ انہیں سے حاصل ہوتا ہے۔ تاہم کچھ دیندار غرباء بھی آپ کے لیکچروں میں پہنچ جاتے تھے۔ خواجہ صاحب نے بتدریج اپنے لیکچروں میں مرزائیت کی اشاعت شروع کی جس کو محسوس کر کے مسلمانوں میں عام طور پر ایک بے چینی پیدا ہوگئی۔ مسلمانوں نے رنگون کی جمعیت العلماء سے فتویٰ بھی اس کے متعلق حاصل کیا اور اس کو چھپوا کر شائع کیا اور جمعیت العلماء کے علماء نے مختلف مقامات پر کمال الدین صاحب ومرزاقادیانی کی رد میں وعظ کہے۔ پھر آٹھ سوالات بھی طبع کراکر مشتہر کئے گئے۔ لیکن خواجہ صاحب نے بجائے اس کے کہ ان سوالات کا جواب دے کر مسلمانوں کی بے چینی دور کرتے اور اپنے مذہب کی طرف سے یہ کہہ کر کہ میں سنی حنفی ہوں اور کلمہ پڑھتا ہوں۔ لوگوں کو دھوکہ میں نہ رکھتے، غریب مسلمانوں کی کسی بات کی پرواہ نہ کی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسلمانوں نے خواجہ صاحب سے بالمشافہ گفتگو کرنے کی تیاری کی اور اس لئے حضرت (امام اہل سنت) مولانا مولوی محمد عبدالشکور صاحب (فاروقی) لکھنوی مدظلہ کی خدمت میں بذریعہ تارسب حال عرض کیا اور جناب مولانا ممدوح کو رنگون آنے کی تکلیف دی۔ جناب ممدوح کے تشریف لانے کے بعد ایک چٹھی سرجمال صاحب رئیس رنگون کی خدمت میں اور متعدد تحریریں خواجہ صاحب کے نام بھیجی گئیں۔ لیکن نہ سرجمال صاحب نے کچھ جواب دیا نہ خواجہ صاحب نے۔ بڑی مشکل سے کئی روز دوڑا کر اور وعدۂ امروز وفردا سے پریشان کر کے خواجہ صاحب نے صرف ایک تحریر کا جواب بھی دیا تو یہ کہ میں مباحثہ نہ کروںگا۔ خواجہ صاحب کی یہ پوری تحریر لفظاً سورتی جامع مسجد میں بتاریخ ۱۰؍محرم الحرام ۱۳۳۹ھ مسلمانوں کے ایک بڑے مجمع کو سنادی گئی اور اس کا جواب بھی مجمع کو سنادیا گیا جو بہت مختصر تھا اور خواجہ صاحب کی خدمت میں بھیج دیا گیا۔ مگر خواجہ صاحب نے جواب الجواب نہ دیا۔ بتاریخ ۹؍محرم ۱۳۳۹ھ باگلے صاحب نے اپنی اور نیز بہت سے انگریزی دان کی طرف سے ایک تحریر انگلش میں شائع کی کہ خواجہ صاحب کے لیکچروں نے حسب ذیل چار اعتراض ہمارے دماغوں میں پیدا کردئیے ہیں۔ جن کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کو ہم غیر ضروری