احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
یہ گرہن مرزاقادیانی کے وقت چاند کو ۱۳؍تاریخ اور سورج کو ۲۸تاریخ لگا۔ (مرزائی پاکٹ بک ایڈیشن ۱۹۴۵ء ص۶۲۸،۶۲۹، بحوالہ دارقطنی ص۳۸۸) الجواب یہ حدیث نبوی ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ محمد بن علی کا قول ہے جو کہ مجہول ہے۔ اس نام کے کئی راوی ہیں۔ معلوم نہیں کہ کون سا محمد بن علی ہے۔ اس روایت کی سند ص۱۴۰ پر دیکھو۔ اس روایت کا ایک راوی عمرو بن شمر سخت ضعیف ہے۔ ’’قال الجوز جانی زائغ کذاب وقال ابن حباب رافعنی۰ وقال البخاری منکر الحدیث وقال النسائی والدارقطنی وغیرہما متروک الحدیث‘‘ (میزان الاعتدال مطبوعہ مصر ج۲ ص۲۹۱،۲۹۲) جو زجانی نے کہا ازحد جھوٹا تھا۔ ابن حبان نے کہا رافضی تھا۔ امام بخاری نے کہا اس کی حدیث سے انکار کردیا جاتا ہے۔ امام نسائی اور دارقطی وغیرہ نے کہا کہ اس راوی کی روایت ترک کر دی جاتی ہے۔ اس روایت کا تیسرا راوی جابر ہے۔ اس نام کے بھی بہت سے راوی ہیں۔ مثلاً ایک جابر جعفی ہے۔ جس کی نسبت امام ابوحنفیہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا اور عطا سے زیادہ افضل کوئی نہ دیکھا۔ امام نسائی نے کہا متروک ’’وقال ابوداؤد لیس بالقوی‘‘ (تقریب التہذیب ص۷۶، میزان الاعتدال ج۱ ص۱۷۶) تمہاری پیش کردہ روایت کے مطابق ماہ رمضان کی پہلی تاریخ کو چاند کو اور ۱۵تاریخ کو سورج کو گرہن لگنا چاہئے تھا۔ مگر وہ حسب معمول ۱۳ اور ۲۸کو لگا۔ حالانکہ روایت کے الفاظ ہیں کہ جب سے اﷲتعالیٰ نے زمین اور آسمان کو بنایا ہے۔ اس وقت سے لے کر مہدی کے زمانہ تک ایسا کبھی گرہن نہ لگے گا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ج۲۷ میں گہن کے متعلق ۷۶۳ برس قبل مسیح سے ۱۹۰۱ء تک کا تجربہ کا ذکر کیاگیا ہے کہ گہن ۲۲۳ برس قبل اور بعد اسی قسم کا گہن ہوتا ہے۔ اس قسم کا گہن مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت سے قبل اور بعد بھی لگ چکا ہے۔ مسٹر کیتھ کی کتاب یوزآف دی گلوبس مطبوعہ لنڈن ۱۸۶۹ء ایڈیشن کے ص۲۷۳تا۲۷۶ میں پورے سو سال کی فہرست دی ہے۔ یعنی ۱۸۰۱ء سے ۱۹۰۰ء تک۔ اس فہرست سے معلوم ہوتا ہے کہ سو برس میں پانچ مرتبہ سورج اور چاند گہن کا اجتماع ماہ رمضان میں ہوا ہے۔ اس طرح حدائق النجوم فارسی مطبع محمدی لکھنؤ ص۷۱۲،۷۲۱ میں گہنوں کی فہرست میں تین مرتبہ چاند وسورج کو گہن ماہ رمضان میں ثابت کیاگیا ہے۔