احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
۲… اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کے تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نور خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد لوگوں کو یہ بتاؤ کہ وقت مسیح ہے اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے (درثمین اردو ص۵۴) ۳… ’’میں یقین کرتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیںگے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیںگے۔ کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹) ۴… ’’ہر ایک شخص جو میری بیعت کرتا ہے اور مجھ کو مسیح موعود جانتا ہے۔ اس روز سے اس کو یہ عقیدہ رکھنا پڑتا ہے کہ اس زمانہ میں جہاد قطعاً حرام ہے۔‘‘ (ضمیمہ رسالہ جہاد ص۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۴۷) ۵… ’’میری اور میری جماعت کی پناہ یہ سلطنت ہے۔ یہ امن جو اس سلطنت کے زیر سایہ ہمیں حاصل ہے نہ یہ امن مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے نہ مدینہ منورہ میں اور نہ سلطان روم کے پایہ تخت قسطنطنیہ میں اور جو لوگ مسلمانوں میں سے ایسے بدخیال جہاد اور بغاوت اپنے دلوں میں مخفی رکھتے ہیں۔ ان کو میں سخت نادان بدقسمت اور ظالم سمجھتا ہوں۔ کیونکہ ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ اسلام کی دوبارہ زندگی انگریزی سلطنت کے امن بخش سایہ سے پیدا ہوئی ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۲۸، خزائن ج۱۵ ص۱۵۶) ۶… ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ ختم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ شیر خوار بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر نبی کریمﷺ کے وقت میں بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر مسیح موعود کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کردیا گیا۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳) ۷… ’’فرقہ احمدیہ کی خاص علامت یہ ہے کہ وہ نہ صرف جہاد کو موجودہ حالت میں ہی رد کرتا ہے بلکہ آئندہ بھی کسی وقت اس کا منتظر نہیں ہے۔‘‘ (اخبار الحکم قادیان مورخہ ۷؍فروری ۱۹۰۳ئ)