احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ضروری ہے تو انصافاً فرمائیے کہ مرزاقادیانی کی زندگی میں اس الہام کے بعد کب ایسا ۱؎ زلزلہ آیا۔ نمبر:۲… مرزاقادیانی کا الہام ہے۔ ’’ما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحیٰ‘‘ اب سوال یہ ہے کہ: ۱… اس الہام کے بعد سے مرزاقادیانی وحی الٰہی سے بولنے لگے تھے۔ یا بچپن ہی سے یا بعثت کے بعد سے؟ اگر اس الہام کے بعد سے وحی الٰہی کے مطا بق آپ بولنے لگے تو اس کے قبل والے کلمات طیبات کو کس نظر سے دیکھنا چاہئے؟ ۲… یہ لفظ ینطق ۲؎ یکتب پر حاوی ہے یا نہیں۔ یعنی کیا مرزاقادیانی کی زبانی بات ہی الہام سے ہوتی تھی یا جو کچھ وہ لکھتے تھے اور بولتے تھے وہ بھی غرض زبانی باتیں اور لکھی ہوئی باتوں میں سے کون سی عن الہویٰ ہوتی تھی۔ اگر کوئی بھی نہیں یعنی اگر ہر دو وحی الٰہی سے ہوتی ۱؎ مولوی عبدالمجید سلمہ کے تعمق نظر اور راست بازی اور صفائی پر میں ان کو مبارک باد دیتا ہوں اور ہر گھڑی دل سے دعاء نکلتی ہے کہ خیالات کی پراگندگی سے جو انسانی خاصہ ہے۔ ان کو یکسوئی اور طریق مستقیم نصیب ہو۔ اس خاکسار کے خیال میں اس سوال کا جواب شافی کوئی صاحب مرزائی جماعت سے دیویں ناممکن ہے۔ کیونکہ جس طرح اس الہام میں خاص مرزاقادیانی کو مخاطب کر کے پیشین گوئی کی گئی ہے اور اس کا ظہور مرزاقادیانی کے وقت میں نہ ہوا۔ اس طرح قرآن مجید میں جناب رسول اﷲﷺ سے خطاب کر کے کوئی پیشین گوئی نہیں کی گئی۔ جس کا ظہور جناب رسول اﷲﷺ کے زمانہ میں نہ ہواہو۔ غرض یہ پیشین گوئی ضرور غلط ہوئی۔ اس کا کچھ جواب نہیں ہوسکتا۔ ۲؎ ۱۰؍اکتوبر تک تو ہمارے عزیز مولوی عبدالمجید سلمہ نے مثل ایک پورے مقنن جج کے معاملات متعلقہ الہام مرزاقادیانی میں نہایت انصافانہ (۹)ایشو یعنی امور تنقیح طلب قائم کئے ہیں۔ ضمیمہ نمبر میں دو ایشو اور ضمیمہ نمبر۲ میں (۷) ایشو مگر مجھ کو ان کی دیانت اور عدالت سے تعجب یہ ہوتا ہے کہ جس عادل جج کے ایشو ایسے عمیق اور تجویز طلب ہوں۔ پھر وہی جج چند ہی روز کے بعد بغیر اس کے کہ ان ایشو کا کوئی جواب لیوے اور کچھ ثبوت عدالت میں پیش ہو۔ فریق سے مل کر ایک طرفہ فیصلہ کر کے حق طلب کی فریاد کے نام سے اپنا فیصلہ شائع کرنے۔ اسی خاطر راقم نے دیباچہ میں عرض کیا ہے کہ اﷲتعالیٰ استقامت دیوے۔ یہ کوئی مروت نہیں ہے کہ معرفت دیرنیہ کے خیال سے چہار چشمی کے لحاظ سے فیصلہ غلط کر کے اپنی دیانت پر دھبہ لگائیں۔ بلکہ یہ تو صریح اخلاق کریمہ کا ضعف ہے۔