احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
وما توفیقی الا باﷲ! بسم اﷲ الرحمن الرحیم! ’’حامداً ومصلیا علیٰ رسولہ الکریم۰ والہ وصحبہ اجمعین‘‘ مجھے ہمیشہ اس امر کی کوشش رہتی ہے کہ تحریروں میں تہذیب قائم رہے۔ مخالفین کا جواب نرم لفظوں میں دیا جائے۔ بازاری لہجہ سے بچتا رہوں۔ مگر جب اخبار بدر مورخہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء کو دیکھتا ہوں تو خواہ مخواہ من حیث بشریت طبیعت پریشان ہو جاتی ہے اور ترکی بہ ترکی جواب دینا نامناسب معلوم نہیں ہوتا کہ آہن بہ آہن تواں کرد نرم۔ مشہور مقولہ ہے جب دارالغدر قادیان کے اخبار کا ایسا گندہ مضمون نکلتا ہے اور زبان قلم کو اپنے اندرونی نجس الفاظ سے ناپاک کرتے ہیں۔ باوجودیکہ خلیفہ صاحب وہیں موجود ہیں اور مضمون ان کی منظوری سے درج اخبار ہوتا ہے۔ مگر تعجب ہے کہ اس گندگی پر ذرا بھی ان کو اعتنا نہ ہوئی۔ تو پھر دوسرے مرزائیوں کا کیا ٹھکانا ہے۔ لہٰذا جماعت احمدیہ مجھے ترکی بہ ترکی جواب دینے میں معذور سمجھے۔ اے بادصبا ایں ہمہ آوردہ تست جب سے رسالہ فیصلہ آسمانی شائع ہوا ہے۔ قادیانیوں میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ہر طرف دبکتے پھرتے ہیں۔ جواب دینے کے نام سے ان کے دلوں میں لرزہ آتا ہے۔ مونگیر اور بھاگلپور کی مرزائی مشنری کا شیرازہ ٹوٹا جاتا ہے۔ جدھر دیکھئے ہر طرف سے ان پر نفریں کی بوچھاڑ پڑ رہی ہے۔ نیا الو کوئی دام میں نہیں آتا۔ چندیں شکل برائے اکل کا قافیہ تنگ ہونے لگا۔ فریاد وزاری کی صدائیں قادیان تک پہنچنے لگیں۔ مرزائی مشین ڈھیلی پڑ گئی۔ تمام صوبہ بہار میں اور ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں فیصلہ آسمانی کا چرچا ہے۔ مرزاقادیانی کی منکوحہ آسمانی والی پیشین گوئی پر ۱۰برس کے بچہ سے لے کر ۸۰برس کا بڈھا بھی مضحکہ اڑارہا ہے۔ مگر مخالفین کی غیرت خدا جانے کس جزیرہ میں روپوش ہوگئی کہ ان کو ذرا شرم نہیں آتی اور بڑی ڈھٹائی سے کبھی ایک مدرس صاحب کسی اخبار میں بے سر وتال کی الاپ اپنے بھائیوں کی حمایت میں الاپتے ہیں۔ کسی میں مفتی صاحب ڈفالیوں کی طرح ربانہ لے کر بے سراتان لگاتے ہیں۔ مگر اس سے ہوتا کیا ہے۔ فیصلہ آسمانی کا جواب دیں اور اشتہار کے مطابق ہزار روپیہ کی تھیلی مفت راچہ باید گفت حاضر ہے۔ اجی آپ تو کیا اگر مرزاقادیانی آنجہانی بھی زندہ رہتے تو فیصلہ آسمانی کا جواب ہرگز نہ دے سکتے۔ بات بنانا دوسری بات ہے اور جواب باصواب دینا اور شے ہے۔ لازم تو یہ تھا کہ خود جناب خلیفتہ