احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اس قسم کے اقوال حضرت مسیح کی توہین میں مرزاقادیانی کے بہت ہیں۔ چنانچہ چند اقوال وغیرہ سے انتخاب کر کے پیش کئے جاتے ہیں۔ جن سے ظاہر ہو جائے گا کہ مرزاقادیانی خدا کے برگزیدہ رسولوں کی کیسی بے حرمتی کرتے ہیں اور ان کے مریدین اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ (انجام آتھم ص۵، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹) میں حضرت یسوع مسیح کی نسبت لکھتے ہیں۔ ’’آپ کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی اکثر عادت تھی۔‘‘ پھر لکھتے ہیں یہ بھی یاد رہے کہ: ’’آپ کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی بھی عادت تھی۔‘‘ یہاں دو صفتیں حضرت یسوع مسیح کی مرزاقادیانی نے بتائیں۔ ایک یہ کہ گالیاں دینے اور بدزبانی کرنے کی انہیں عادت تھی۔ دوسرے یہ کہ جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔ یہ نہیں کہ اتفاقیہ کبھی جھوٹ بولا ہو یا بدزبانی کی ہو۔ بلکہ بدزبانی کرنے اور جھوٹ بولنے کی عادت تھی۔ اب چونکہ مرزاقادیانی کا اوّل دعویٰ مثیل مسیح ہونے کا تھا اور مسیح کی یہ عادتیں بیان کرتے ہیں۔ غالباً اسی وجہ سے مرزاقادیانی ان صفتوں میں مشاق تھے۔ اپنے مخالفین علماء کو بہت کچھ گالیاں دی ہیں اور بدزبانی کی ہے اور جھوٹ کا بھی اعلیٰ مرتبہ اختیار کیا ہے۔ یعنی قرآن وحدیث اور کتب سابقہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کی ہیں۔ جن کا نام ونشان بھی ان میں نہیں ہے۔ غرضیکہ اپنے مثیل مسیح ہونے کے دعویٰ کو اس بیان سے ثابت کرتے ہیں۔ شاید یہ بھی غرض ہو کہ کوئی راست باز مرزاقادیانی میں اس صفت کو دیکھ کر اعتراض نہ کرے۔ کیونکہ ایسے نبی میں یہ صفت موجود ہے۔ جنہیں مسلمان اور عیسائی دونوں خدا کا سچا رسول مانتے ہیں۔ اے راست بازو کیا برگزیدہ خدا، اور بالخصوص اس کے سچے رسولوں کی شان ہوسکتی ہے؟ اور جس میں یہ صفت ہو وہ خدا کا رسول ہوسکتا ہے؟ خوف خدا کو دل میں لاکر اس میں غور کرو۔ (ضمیمہ انجام آتھم ص۶، خزائن ج۱۱ ص۲۹۰) میں کچھ اور بھی فرماتے ہیں۔ ’’آپ نے پہاڑی تعلیم کو جو انجیل کا مغز کہلاتی ہے۔ یہودیوں کی کتاب طالمود سے چراکر لکھا ہے اور پھر ایسا ظاہر کیا ہے کہ گویا میری تعلیم ہے۔‘‘ اس سے کئی باتیں ثابت ہوئیں۔ ۱… یہ ظاہر ہوا کہ جن بزرگ کے صفات مرزاقادیانی بیان کر رہے ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کی طرف انجیل منسوب ہے اور یہ دنیا جانتی ہے کہ انجیل وہی ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دی گئی۔ انجیل میں ان کا نام یسوع بھی ہے۔ کوئی دوسرے شخص نہیں ہیں۔ ۲… انجیل میں جو عمدہ تعلیم ہے وہ الہامی خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ بلکہ چرائے ہوئے مضامین ہیں اور قرآن مجید میں جو ارشاد ہے کہ: ’’واتیناہ الانجیل‘‘ یہ غلط ہے۔