احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اس کو ظاہر پر حمل کرنا چاہئے اور اس حدیث میں ابن مریم کے نزول کا ذکر ہے نہ کہ مرزا قادیانی کا۔ ابن مریم سے مرزا قادیانی مراد لینا تاویل ہے اور یہ مرزا قادیانی کے نزدیک جائز نہیں۔ دوسرے اس حدیث میں عیسیٰ علیہ السلام کو حاکم عادل قراردیا گیا ہے اور مرزا قادیانی کے پاس حکومت نہ تھی۔ لہٰذا مرزا قادیانی قاعدہ کے برخلاف ہے کہ قسم کی جگہ تاویل نہیں کرنی چاہئے۔ نیز علماء بلاغت کے نزدیک مجازی معنی وہاں لیا جاتا ہے جہاں حقیقی معنی لینا صحیح اورممکن نہ ہو اور حدیث مذکور میں حقیقی معنی بالکل ممکن ہے۔ پھر تاویل کیوں کی جائے۔ چنانچہ مرزا قادیانی فرماتے ہیں: ’’بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی مسیح بھی آجائے۔ جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔ کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا ہے۔ درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے اور جبکہ یہ حال ہے تو پھر علماء کے لئے اشکال ہی کیا ہے۔ ممکن ہے کسی وقت ان کی مراد بھی پوری ہوجائے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۲۰۰، خزائن ج۳ ص۱۹۷) اس عبارت میں مرزا قادیانی تسلیم کرتے ہیں کہ حقیقت مسیحیت محال نہیں۔ بلکہ ممکن ہے اور یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح کی حقیقت حکومت ظاہریہ ہے جو مجھ میں نہیں ہے۔ جب حقیقت ممکن ہے تو امکان حقیقت کے وقت مجاز کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے: ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا میرے حق میں زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعان کا گو مرزا قادیانی کے اقرار کے بعد کسی شہادت کی ضرورت نہیں۔ تاہم ایک گواہ ایسا پیش کیا جاتا ہے جس کی توثیق مرزا قادیانی نے خود اعلیٰ درجہ کی کی ہوئی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ’’مولوی نورالدین احب بھیروی کے مال سے جس قدر مجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کرسکوں۔ میں نے ان کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے اپنی خدمتوں میں جانثار پایا۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۷۷، خزائن ج۳ ص۵۲۰) یہی مولوی صاحب ہیں جو مرزا قادیانی کے انتقال کے بعد خلیفہ اول ہوئے۔ وہی مولوی نورالدین اصولی طور پر ہماری تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ہرجگہ تاویلات وتمثیلات سے استعارات وکنایات سے اگر کام لیا جائے تو ہر ایک ملحد، منافق، بدعتی، اپنی آراء ناقصہ اور خیالات باطلہ کے موافق الٰہی کلمات طیبات کو لاسکتا ہے۔ اس لئے ظاہر معانی کے علاوہ اور معانی لینے کے واسطے اسباب قویہ اور موجبات حقہ کا ہونا ضرور ہے۔‘‘ (ضمیمہ ازالہ اوہام ص۸، خزائن ج۳ ص۶۳۱)