احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
) دیاگیا ہے اور ہم کو بعض مدعی عنوان دیاگیا ہے۔ یعنی ہم پر نبی کا نام جائز نہیں رکھا گیا۔ باوجودیکہ حق تعالیٰ ہم کو ہمارے باطن میں اپنے کلام اور اپنے رسولﷺ کے کلام کے معنی کی خبر دیتا ہے۔} (جو کمالات نبوت میں سے ایک کمال ہے مگر محض کوئی کمال بطور نیابت کے عطاء ہوجانا یہ نہیں چاہتا کہ نائب اصل بن جائے۔) اس کی شرعی مثال ایسی ہے کہ یہ تو کہنا جائز ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انبیاء کو بعض غیوب کا علم عطاء فرمایا ہے۔ مگر ان انبیاء کو عالم الغیب کہنا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ صفت کے درجے میں خداتعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ اسی طرح یہاں یہ کہنا جائز ہوگا کہ اولیاء کو بعض کمالات نبوت خداتعالیٰ نے دئیے ہیں۔ مگر ان اولیاء کو نبی کہنا جائز نہ ہوگا۔ فافہم! ۱۴… ’’(قال بعد کلام طویل فی مدح المجتہدین) فعلم ان المجتہدین ہم الذین ورثوالانبیاء حقیقۃ لانہم فی منازل الانبیاء والرسل من حیث الاجتہاد وذلک لا نہ صلی اﷲ علیہ وسلم اباح لہم الاجتہاد فی الاحکام وذالک تشریع عن امر الشارع فکل مجتہد مصیب من حیث تشریعیہ بالاجتہاد کما ان کل بنی معصوم قال انما عبداﷲ المجتہدین بذلک یحصل لہم نصیب من التشریح ویثبت لہم فیہ القدم الراسخۃ ولا یتقدم علیہم فی الاخۃ سوی نبیہم صلی اﷲ علیہ وسلم فیحشر علما وہذا الامتہ حفاظ الشریعۃ المحمدیۃ فی حلفوف الانبیاء والرسل لا فی حلفوف الامم (فتوحات ب۳۶۹ ج۲ ص۹۷)‘‘ {مدح مجتہدین میں ایک کلام طویل کے بعد فرمایا کہ اس سے معلوم ہوا کہ مجتہدین ہی حقیقت میں انبیاء کے وارث ہیں۔ کیونکہ وہ اجتہاد کی حیثیت سے انبیاء والرسل کے مدارج میں ہیں اور یہ اس طرح ہے کہ ان کے لئے نبیﷺ نے احکام میں اجتہاد کو جائز فرمایا ہے اور یہ بامر شارع ایک تشریع ہے۔ پس ہر مجتہد اپنی تشریع اجتہادی کی حیثیت سے مصیب ہے۔ جیساہر نبی معصوم ہے اور یہ بھی فرمایا کہ اﷲتعالیٰ نے جو مجتہدین کے لئے اجتہاد کو عبارت بنادیا ہے۔ وہ صرف اس لئے ہے کہ ان کو بھی تشریع کا ایک حصہ نصیب ہو جائے اور اجتہاد میں ان کا قدم راسخ ہو جائے اور آخرت میں کوئی شخص (امت محمدیہ) میں سے بجز ان کے نبیﷺ کے ان پر مقدم نہ ہوسکے۔ پس اس امت کے جو علماء شریعت محمدیہ کے محافظ ہیں۔ وہ انبیاء ورسل کی صفوں میں اٹھائے جائیںگے نہ امتوں کی صفوں میں۔}