احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اس پیش گوئی نے امت مرزائیہ کو سخت پریشان کر رکھا ہے۔ کوئی کچھ کہتا ہے کوئی کچھ فرماتا ہے۔ لیکن جناب مرزاقادیانی نے ان سب کا جواب دینے سے ہم کو سبکدوش فرمادیا ہے۔ کیونکہ آپ بذات خود اس پیش گوئی کے متعلق ایک اعلان دے چکے ہیں۔ جس کے سامنے اور کسی کی چل نہیں سکتی۔ امت مرزائیہ اﷲ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حضرت مرزاقادیانی کا فرمان سنیں۔ حضرت موصوف فرماتے ہیں۔ ’’نفس پیش گوئی اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز (مرزاقادیانی) کے نکاح میں آنا تقدیر مبرم (ان ٹل) ہے۔ جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔ کیونکہ اس کے لئے الہام الٰہی میں یہ فقرہ موجود ہے۔ ’’لا تبدیل لکلمات اﷲ‘‘ یعنی میری (اﷲ کی) یہ بات نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل جائے تو خداتعالیٰ کا کلام باطل ہوتا ہے۔‘‘ (اشتہار ۶؍اکتوبر ۱۸۹۴ئ، مندرجہ کتاب تبلیغ رسالت ج۳ ص۱۱۵، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۹۵) ناظرین! اس سے بڑھ کر بھی کوئی صاف گوئی ہوگی۔ جو حضرت مرزاقادیانی نے اس عبارت میں فرمائی ہے۔ بات بھی صحیح ہے کہ خدا جس امر کی بابت خبر دے پھر اس کی تائید کے لئے لا تبدیل فرمائے۔ پھر وہ تبدیل ہو جائے۔ تو خدائی کلام کے جھوٹ ہونے میں کچھ شک رہتا ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ نکاح مرزاقادیانی سے ہوگیا۔ آہ! اس کا جواب بڑی حسرت اور افسوس کے ساتھ دیا جاتا ہے کہ نکاح نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کے دن بیچارے اس حسرت کو اپنے ساتھ قبر میں لے گئے۔ اب ان کی قبر سے گویا یہ آواز آتی ہے ؎ جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہوں رقیب جدا ہے اپنا اپنا مقدر جدا نصیب جدا کیا کسی نبی کی ایسی حتمی اور قطعی پیش گوئی جھوٹی نکلی؟ جس کو اس نبی نے اپنے صدق یا کذب کا معیار ٹھہرایا ہو اور خدا نے باربار اس کو پورا ہونے کی تاکید فرمائی ہو تو پھر خدا کا کیا اعتبار رہا؟ جو انسان سے بھی زیادہ جھوٹا ہو۔ وہ خدا کیسا؟ کیونکہ اتنے پختہ وعدہ کا تو انسان بھی کچھ پاس کرتا ہے۔ خدا تو خدا ہے۔ حالانکہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’وہ (خدا) ہر بات پر قادر ہے۔ مگر اپنی صفات قدیمہ اور اپنے عہد اور وعدے کے برخلاف نہیں کرتا اور سب کچھ کرتا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۸۷، خزائن ج۳ ص۳۰۱) اور (توضیح مرام ص۸، خزائن ج۳ ص۵۵) پر فرماتے ہیں ’’کیا ایسے بزرگ اور حتمی وعدہ کا ٹوٹ جانا خدا تعالیٰ کے تمام وعدوں پر ایک سخت زلزلہ نہیں لاتا؟ ان لغو باتوں سے خدا تعالیٰ کی کسر شان اور کمال درجہ کی بے ادبی نہیں ہوگی؟‘‘ (ضرور ہوگی)