احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
ہیں۔ ’’بعض علماء نے الحاد اور تحریف سے اس جگہ توفیتنی سے رفعتنی مراد لیا ہے اور اس طرف ذرا خیال نہیں کیا کہ یہ معنی نہ صرف لغت کے بلکہ سارے قرآن کے مخالف ہیں۔ پس یہی تو الہاد ہے۔ قرآن شریف میں اوّل سے آخر تک بلکہ صحاح ستہ میں بھی انہی معنی کا التزام کیاگیا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۶۰۱، خزائن ج۳ ص۴۲۶) یہ تو مرزاقادیانی کے خیال کے مطابق لغت،قرآن، حدیث کے خلاف معنی کر کے علماء اسلام جرام الحاد وتحریف کے مرتکب اور اس لئے محرف وملحد یعنی کافر ہوئے۔ مگر اب مرزقادیانی کا حال سنئے۔ ۱… (ازالہ ص۳۹۴، خزائن ج۳ ص۳۰۳) پر اقرار کیا ہے کہ: ’’آیت متوفیک میں (بلفظ متوفیک) موت کا وعدہ ہے۔ نہ کہ موت کی دلیل یا خبر۔‘‘ اور (ازالہ ص۳۹۲، خزائن ج۳ ص۳۰۲) پر مان لیا ہے کہ: ’’متوفیک میں موت سے مراد حقیقی موت نہیں بلکہ مجازی موت مراد ہے۔‘‘ نیز اسی کتاب میں متعدد مقام پر تسلیم کرلیا ہے کہ بقرنیتہ متوفیک ورافعک الّی سے مراد باعزت موت ہے اور (ازالہ ص۳۳۲، خزائن ج۳ ص۳۶۹) پر ’’توفی کا معنی بظاہر نیند ہونا قبول کر لیا ہے۔‘‘ دیکھئے مرزاقادیانی نے توفی کا حقیقی معنی موت لیا اور آیت کو دلیل موت میں پیش کیا تھا۔ مگر کس صفائی سے اسی آیت اور اسی لفظ کی بحث میں وعدۂ موت، مجازی موت، باعزت موت اور نیند کی طرف اتر آئے۔ ابھی کیا ہے اور دیکھئے۔ ۲… مولوی ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی نے (شہادۃ القرآن طبع سوم ج۱ ص۱۱۰) میں لکھا ہے کہ مرزاقادیانی نے (آئینہ کمالات اسلام ص۵۶۴، خزائن ج۵ ص ایضاً) میں جہاں اپنے آپ کو خدا بنایا ہے۔ استوفانی لکھا ہے اور اس جگہ فاعل اﷲ تعالیٰ ہے اور مفعول خود مرزاقادیانی ذی روح اور اس سے مراد موت نہیں ہے۔ پس مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ لفظ توفی سوائے قبض روح کے کسی اور معنی میں مستعمل نہیں ہوتا۔ بالکل غلط اور مردود ٹھہرا۔ ۳… قاضی سلیمان مرحوم نے (تائید الاسلام طبع دوم ص۱۶) میں لکھا ہے کہ: ’’براہین احمدیہ میں جس کو مرزاقادیانی نے خدا کے حکم والہام سے لکھا اور جس کو کشف میں حضرت سیدہ فاطمہ زہرا نے مرزاقادیانی کو یہ کہہ کر دیا کہ یہ تفسیر علی مرتضیٰ ہے۔ مرزاقادیانی نے آیت یا عیسیٰ انی متوفیک کا اپنے اوپر الہام ہونا لکھا ہے اور پھر اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے