احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
کو جو ریلوے لائن جاتی ہے۔ اس میں ایک بڑا اسٹیشن بٹالہ ہے۔ جو ایک پرانا اور مشہور قصبہ ہے۔ بٹالہ سے گیارہ میل کے فاصلہ پر ’’کادیان‘‘ ہے۔ مرزاغلام احمد اسی مقام ’’کادیان ۱؎‘‘ کے رہنے والے تھے۔ جس کو انہوں نے قادیان مشہور کیا۔ مرزاغلام احمد (مرزائیوں کے بقول) ۱۲۶۱ھ مطابق ۱۸۴۵ء (اور اپنے بقول ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ئ) میں پیدا ہوئے اور ۲۴؍ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ مطابق ۲۶؍مئی۱۹۰۸ء کو مرگئے۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۵۹، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷) مرزاغلام احمد کے والد مرزاغلام مرتضیٰ پیشہ طبابت کرتے تھے اور کچھ مختصر سی زمینداری بھی تھی۔ مرزاقادیانی نے ابتداء عمر میں فارسی اور کچھ عربی پڑھی۔ کتب درسیہ تمام نہیں ہونے پائیں کہ (اوباش دوستوں اور اپنی آوارہ گردی کی بدولت) فکر معاش نے پریشان کردیا۔ تحصیل علم چھوڑ کر نوکری کی تلاش شروع کی۔ مرزا کا ابتدائی زمانہ نہایت گمنامی اور عسرت میں گذرا۔ جیسا کہ خود مرزا نے اپنی کتاب ’’استفتا‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی مفلسی اور تنگدستی کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ میرے باپ دادا انہیں سختیوں میں مرگئے۔ (ضمیمہ حقیقت الوحی ص۷۸، خزائن ج۲۲ ص۷۰۴) المختصر مرزاغلام احمد بہت سرگردانی وپریشانی کے بعد کسی طرح سیالکوٹ کی کچہری میں (۱۸۶۴ء میں منشی گیری کے لئے) پندرہ روپیہ ماہوار کے ملازم ہوگئے۔ مگر اس قلیل رقم میں فراغت کے ساتھ بسر نہ ہوسکی تو یہ سوچا کہ مختاری (وکالت) کا قانون پاس کر کے مختاری شروع کریں۔ چنانچہ بڑی محنت سے قانون یاد کرنا شروع کیا۔ لیکن امتحان دیا تو کامیاب نہ ہوئے۔ آدمی تھے چلتے ہوئے۔ لہٰذا (۱۸۶۸ء میں منشی گیری چھوڑ کر) ایک دوسرا راستہ اپنے لئے تجویز کیا۔ اشتہار بازی اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ سے شہرت حاصل کرنے کے درپے ہوئے۔ سب سے پہلے آریوں کے مقابلہ میں آپ نے اشتہار بازی شروع کی۔ بڑے بڑے اشتہار نہایت آب وتاب سے ہزاروں شائع کئے۔ راقم کی نظر سے مرزاقادیانی کے کئی ابتدائی اشتہارات گذر چکے ہیں۔ ایک اشتہار پر ۲؍مارچ ۱۸۷۸ء کی تاریخ ہے۔ ۱؎ صحیح نامہ اس مقام کا یہی ہے۔ اہل پنجاب اس کو اب بھی کادیان کہتے ہیں۔ پنجابی زبان میں کادی کیوڑہ کو کہتے ہیں۔ اس بستی میں کیوڑا فروش لوگ رہتے تھے۔ مرزا نے بہت روپیہ صرف کر کے سرکاری کاغذات میں اس کو قادیان لکھوایا اور لکھا کہ یہ لفظ دراصل قاضیان تھا۔ حالانکہ یہ سب جھوٹ اور گناہ بے لذت ہے۔