احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
محدثوں کی نبوت قرار دیا ہے۔ وہ سب کے سب بلا استثناء ۱۹۰۱ء سے پہلے کی کتب ہیں اور یہ میں ثابت کرچکا ہوں کہ تریاق القلوب بھی انہیں کتب میں سے ہے اور ۱۹۰۱ء کے بعد کی کتب میں سے ایک کتاب میں بھی اپنی نبوت کو جزئی قرار نہیں دیا اور نہ ناقص اور نہ نبوت محدثیت اور نہ صاف الفاظ میں کہیں لکھا ہے کہ میں نبی نہیں بلکہ یہ فرمایا ہے کہ میں شریعت ۱؎ لانے والا نبی اور براہ راست نبوت پانے والا نبی نہیں ہوں۔ ہاں ایسا نبی ضرور ہوں۔ جس نے نبوت کا فیضان بواسطہ آنحضرتﷺ پایا ہے۔ اس اختلاف سے اتنا تو ضرور معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود نے اپنے عقیدہ میں ایک تبدیلی ضروری کی ہے۔ یعنی پہلے اپنی نبوت کو محدثیت قرار دیتے تھے۔ لیکن بعد میں اس کا نام نبوت ہی رکھتے ہیں اور نبوت کا انکار نہیں کرتے۔ بلکہ شریعت جدیدہ لانے اور براہ راست نبوت پانے کا انکار کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد بفاصلہ دس سطور لکھتا ہے۔ ’’اور چونکہ تریاق القلوب کے زمانہ تک آپ نے اپنے کو مسیح سے کلی طور پر افضل ہونے کا انکار کیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبوت کا مسئلہ آپ پر ۱۹۰۰ء یا ۱۹۰۱ء میں کھلا ہے اور چونکہ ایک غلطی کا ازالہ ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا ہے۔ جس میں آپ نے اپنی نبوت کا اعلان بڑے زور سے کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں آپ نے اپنے عقیدہ میں تبدیلی کی ہے اور ۱۹۰۰ء ایک درمیانی عرصہ ہے جو دونوں خیالات کے درمیان میں برزخ کے طور پر حد فاضل ہے۔ پس ایک طرف آپ کی کتابوں سے اس امر کے ثابت ہونے سے کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے آپ نے نبی کا لفظ باربار استعمال کیا ہے اور دوسری طرف حقیقت الوحی سے یہ ثابت ہونے سے کہ آپ نے تریاق القلوب کے بعد نبوت کے متعلق عقیدہ میں تبدیلی کی ہے۔ یہ بات ثابت ہے کہ ۱۹۰۱ء سے پہلے وہ حوالے جن میں آپ نے نبی ہونے سے انکار کیا ہے اب منسوخ ہیں اور ان سے حجت پکڑنی غلط ہے۔‘‘ اس عبارت میں بھی اگرچہ دجل وفریب بہت کچھ ہے۔ مثلاً یہ کہ عقائد میں تبدیلی اور نسخ کو جائز رکھا ہے۔ حالانکہ عقلاً ونقلاً انبیاء علیہم السلام کے عقائد میں ہرگز تبدیلی نہیں ہوتی کہ ۱؎ یہ بھی دجل ہے کہ یہاں مطلق شریعت لانے کی نفی ہے اور آگے چل کر شریعت جدیدہ لانے کی نفی جس سے شریعت غیر جدیدہ لانے کا اقرار ہوتا ہے اور کتاب اربعین میں اس کی صاف تصریح بھی ہے۔ جیسا کہ اوپر منقول ہوا۔