احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
مرزاغلام احمد قادیانی مذکور ۱۲۶۱ھ مطابق ۱۸۴۰ء میں پیدا ہوا اور ۲۴؍ربیع الثانی ۱۳۲۰ھ مطابق ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو مرا۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے باپ مرزاغلام مرتضیٰ طبابت کا پیشہ کرتے تھے اور کچھ مختصر سی زمینداری بھی تھی۔ مرزاقادیانی نے ابتدائی عمر میں فارسی اور کچھ عربی پڑھی۔ کتب درسیہ تمام نہیں ہونے پائیں کہ فکر معاش نے پریشان کردیا۔ تحصیل علم چھوڑ کر نوکری کی تلاش میں سرگردان ہونا پڑا۔مرزاقادیانی کا ابتدائی زمانہ نہایت گمنامی اور تنگدستی میں گذرا۔ جیسا کہ خود مرزاقادیانی نے اپنی کتاب استفتاء میںبڑی تفصیل کے ساتھ اپنی مفلسی اور پریشان حالی کو بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ میرے باب دادا انہیں سختیوں میں مرگئے۔ خدا جانے کس طرح اور کس کس کی چوکھٹ پر جبہہ فرسائی کے بعد سیالکوٹ کی کچہری میں پندرہ روپیہ ماہوار کی نوکری مل گئی۔ مگر اس قلیل رقم میں فراغت کے ساتھ بسر نہ ہوسکی۔ چنانچہ اب یہ فکر دامنگیر ہوئی کہ مختاری کا قانون پاس کر کے مختاری کا پیشہ شروع کریں۔ بڑی محنت سے قانون انگریزی یاد کیا۔ مگر امتحان میں ناکامی کا داغ پیشانی پر لگا۔ چالاکی تو فطرت میں تھی ہی۔ لہٰذا مختاری کے امتحان میں ناکام ہونے کے بعد آپ نے ایک دوسرا راستہ اپنے معاش کے لئے تجویز کیا۔ یعنی اشتہار بازی اور تصنیف وتالیف کے ذریعہ سے شہرت حاصل کرنے اور اس شہرت کو ذریعہ معاش بنانے کے در پے ہوئے۔ سب سے پہلے آپ نے آریوں کے مقابلہ میں اشتہار بازی کی۔ بڑے بڑے اشتہار نہایت آب وتاب سے ہزاروں کی تعداد میں شائع کئے۔ راقم کی نظر سے مرزاقادیانی کے کئی ابتدائی اشتہارات گذر چکے ہیں۔ ایک اشتہار پر ۲؍مارچ ۱۸۷۸ء کی تاریخ ہے۔ جب اس طریقہ سے ایک حد تک شہرت حاصل ہوچکی تو ایک کتاب براہین احمدیہ آریوں کے مقابلہ میں تصنیف کی اور اس کے لئے بڑے بڑے اشتہارات نکالے۔ مسلمانوں سے چندہ لیا اور خوب لیا۔ ہزاروں روپیہ اس بہانہ سے وصول کر لیا اور کچھ فراغت واطمینان سے دن بسر ہونے لگے۔ غالباً مرزاغلام احمد قادیانی نے اسی وقت سے اپنے دماغ میں یہ خیالات قائم کر لئے تھے کہ بتدریج مجددیت پھر مسیحیت پھر نبوت رسالت کے دعویٰ کرنا چاہئے۔ اگر یہ دعویٰ چل گئے تو پھر کیا ہے اچھی خاصی بادشاہت کا لطف آجائے گا اور اگر نہ چلے تو اب کون سی عزت حاصل ہے۔ جس کے چلے جانے کا خوف ہو۔بنیاد ان دعوؤں کی ان کے ابتدائی اشتہارات میں بھی کچھ کچھ موجود ہے۔ خوش قسمتی سے مرزاغلام احمد قادیانی کو اسی ابتدائی زمانہ میں کچھ دنوں سرسید احمد خان علی گڑھی کی صحبت بھی نصیب ہوگئی اور ان کے آزاد خیالات نے مرزاقادیانی کے لئے اس