احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
اس موقعہ پر مرزاقادیانی یہ کہتا ہے کہ قتل فی سبیل اﷲ غیر انبیاء کے لئے بلندی رتبہ کا سبب ہے۔ مگر انبیاء کے لئے نقص ہے۔ لہٰذا حضرت عیسیٰ کے لئے بلندی رتبہ منافی قتل ہے۔ مرزاقادیانی کا یہ قول صریح آیات قرآنیہ کے خلاف ہے۔ جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ انبیاء علیہم السلام بھی مقتول ہوئے۔ قولہ تعالیٰ: ’’ویقتلون النبیین بغیر الحق‘‘ اور ’’وقتلہم الانبیاء بغیر حق (النسائ:)‘‘ مرزاقادیانی ان سب آیات اور تاریخی واقعات کے خلاف کہتا ہے کہ انبیاء کبھی مقتول نہیں ہوئے اور قتل ہونا خلاف شان نبوت ہے۔ نعوذ باﷲ منہ! دلیل نمبر:۳ ’’ویکلم الناس فی المہد وکہلا ومن الصلحین (آل عمران)‘‘ {کلام کریں گے عیسیٰ لوگوں سے گہوارہ میں یعنی حالت نوزائیدگی میں اور بڑی عمر میں اور نیکوں میں سے ہوںگے یعنی نبی ہوںگے۔} یہ آیت اس موقع کی ہے جب حضرت مریم صدیقہ کو بشارت فرزند کی سنائی گئی تو اس فرزند ارجمند کے فضائل ومناقب بھی ان کو بتائے گئے کہ وہ کوئی معمولی لڑکا نہ ہوگا۔ اس میں یہ یہ اوصاف ہوںگے۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فضائل بیان ہورہے ہیں۔ لہٰذا تین چیزیں جو آیت میں ہیں۔ ان تینوں سے اس کی فضیلت ثابت ہونی چاہئے۔ چنانچہ پہلی چیز یعنی گہوارہ میں کلام کرنا اور تیسری چیز یعنی نیکوں میں سے ہونا۔ بلاشبہ غیر معمولی فضیلت ہے۔ حالت نوزائیدگی میں کلام کرنا ایک ایسی مافوق العادت صفت ہے جس پر منکروں کو بھی تعجب تھا کہ کوئی بچہ پیدا ہوتے ہی کیسے کلام کرسکتا ہے۔ قولہ تعالیٰ: ’’قالوا کیف نکلم من کان فی المہد صبیاً‘‘ یہ پورا واقعہ قرآن شریف میں ہے۔ ’’علیٰ ہذا‘‘ نبی ہونا بھی ایک ایسا وصف ہے جو یقینا قابل تعریف ہے اور ہر انسان میں نہیں پایا جاتا۔ پس ضروری ہو اکہ درمیانی چیز یعنی بڑی عمر میں لوگوں سے کلام کرنا بھی غیر معمولی وصف کے معنی میں لیا جائے اور اس کا غیر معمولی وصف ہونا اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ موافق عقیدہ اہل اسلام کے وہ ایک ایسی مدت دراز تک زندہ مانے جائیں کہ اس عمر تک عادۃً انسان نہ پہنچتے ہوں۔ ورنہ جو عمر ان کی بوقت رفع یا بقول مرزائیہ بوقت موت بیان کی جاتی ہے۔ اس عمر میں کلام کرنا کوئی غیر معمولی صفت نہیں۔ بلکہ اوصاف میں شمار کرنے کے قابل ہی نہیں۔ اکثر انسان اس عمر تک پہنچتے ہیں اور لوگوں سے کلام کرتے ہیں۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کمال ہی کیا ہوا۔ نعوذ باﷲ آیت لغو ہوگئی۔ جیسا کہ ایک شاعر اپنے محبوب کی تعریف میں کہتا ہے ؎