احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
جواب بیشک وہ نازل ہونے کے بعد نبی ہوںگے جیسے کہ تھے۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ پہلے وہ شریعت موسویہ پر عمل کرتے تھے۔ اب شریعت محمدیہ پر عامل اور اس کے مبلغ ہوںگے۔ لہٰذا رتبہ ان کا گھٹا نہیں بلکہ بڑھ گیا۔ رہا ان کی نبوت کا عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف ہونا۔ یہ بھی محض فریب ہے۔ ختم نبوت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو آنحضرتﷺ کے بعد نبوت نہیں ملے گی اور حضرت مسیح علیہ السلام کو نبوت پہلے سے ملی ہوئی ہے نہ یہ کہ اب ملی۔ لہٰذا عقیدۂ ختم نبوت کے خلاف نہ ہوا۔ یہاں تک تو عقلی دلائل تھے۔ اب ذرا نقلی دلائل بھی سن لیجئے۔ مرزائی نقلی دلیل ’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ میں تم کو موت دینے والا ہوں اور تم کو اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے عیسیٰ صلیب پر تمہاری موت نہ ہوگی بلکہ میں تم کو موت طبعی دے کر اپنے پاس بلالوںگا۔ جواب اس آیت سے حضرت مسیح علیہ السلام کی موت پر استدلال دوباتوں پر موقوف ہے۔ اوّل یہ کہ توفی جس کا مشتق اس آیت میںہے موت دینے کے معنی میں ہو۔ دوم یہ کہ توفی رفع یعنی اٹھانے سے پہلو ہو۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں لغت عرب سے ثابت نہیں ہوتیں۔ توفی لغت میں بمعنی موت کے نہیں ہے۔ بلکہ اس کے معنی لغت میں ’’پورا لے لینا‘‘ ہیں۔ دیکھو کتب لغت مصباح، قاموس وغیرہ۔ خود قرآن کریم میںیہ لفظ موت کے سوا دوسرے معنی میں مستعمل ہے۔ قولہ تعالیٰ: ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا والتی لم تمت فی منامہا‘‘ اﷲ اٹھا لیتا ہے جانوں کو بوقت ان کی موت کے اور جو نہیں مرے ان کو سونے کی حالت میں۔ یہ بحث ’’صحیفہ رحمانیہ‘‘ کے کئی نمبروں میں اور ’’الحق الصریح‘‘ وغیرہ میں بہت مدلل ومبسوط ہے۔ جس کاجی چاہے دیکھ سکتا ہے۔ تعجب ہے کہ مرزاقادیانی اور مرزائی اپنے عقیدہ کے خلاف اگر کہیں صریح موت کا لفظ بھی دیکھ لیں تو تاویل ۱؎ کردیتے ہیںکہ یہاں حقیقت مرجانا مراد نہیں اور اس آیت میں صریح ۱؎ چنانچہ اگر جہاں ہم ترجمہ قرآن کا نمونہ دکھائیںگے معلوم ہوگا کہ کتنی جگہ قرآن شریف میں موت کے لفظ سے مرزائیوں نے مرجانا مراد لیا اور خود مرزاقادیانی نے ازالہ اوہام میں لکھا ہے کہ اماتت کے معنی حقیقی صرف مارنا اور موت دینا نہیں بلکہ سلادینا اور بے ہوش کرنا بھی ہے۔ (ازالہ ص۹۴۳، خزائن ج۳ص۶۲۱)