احتساب قادیانیت جلد نمبر 30 |
|
عرض ناشر باسمہ تعالیٰ حامداً ومصلیاً ومسلماً! الحمدﷲ رب العالمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین وخاتم النبیین سیدنا محمد وعلیٰ الہ واصحابہ اجمعین! ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ دین اسلام کا بنیادی اور ضروری عقیدہ ہے اور رسول خداﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک ہر دوراور ہر مقام کے تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع رہا ہے کہ آنحضرتﷺ پر نبوت ورسالت ختم ہوچکی۔ آپؐ کے بعد قیامت تک کسی بھی قسم کا کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔ جو شخص نبیﷺ کے بعد ’’نبوت‘‘ کا دعویٰ کرے وہ ’’کذاب، دجال‘‘ اور کھلا ہوا کافر ہے۔ بیسیویں صدی کے اوائل میں مرزاغلام احمد قادیانی نے صاف اور کھلے لفظوں میں اپنے نبی ورسول ہونے کا اعلان اور دعویٰ کیا تو علماء حق نے اپنا دینی فریضہ تصور کرتے ہوئے اس عظیم فتنہ کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ہزاروں کتابوں، مناظروں اور مباحثوں کے ذریعہ قادیانی مذہب کا رد کیا اور ہر محاذ پر قادیانیت کی سرکوبی کے لئے عظیم قربانیاں پیش کیں۔ زیر نظر کتاب بھی اسی مبارک سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو رنگون میں قادیانی فتنہ کے خلاف ہونے والی کوششوں کی روداد ہے۔ ۱۹۲۰ء میں مرزاغلام احمد قادیانی کے خاص الخاص مصاحب اور لاہوری پارٹی کے رہنما خواجہ کمال الدین بی۔اے، ایل۔ایل۔بی نے رنگون میں مقیم سورتی تاجروں کو اپنے دام فریب میں گرفتار کرنے کے لئے خط وکتابت کی اور ان خطوط میں اپنے رنگون آنے کی خواہش ظاہر کی تاکہ وہ یہاں آکر قادیانیت کی تخم ریزی کریں اور اپنا تیار کردہ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ شائع کرنے کے لئے لوگوں سے چندہ وصول کریں۔ کسی حد تک خواجہ کمال الدین اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے اور انہوں نے اپنے لیکچروں کے ذریعہ سادہ لوح مسلمانوں کو متأثر کیا اور ترجمہ قرآن کے نام پر مسلمانوں سے خاصی رقم بھی جمع کی۔ رنگون میں قائم جمعیت علماء اور دینی مدارس کے ذمہ داروں کو جب اس تشویشناک صورتحال کا پتہ چلا کہ خواجہ کمال الدین رنگون آرہا ہے تو معززین شہر اور جمعیت علماء کی طرف سے پورے شہر میں اشتہارات تقسیم کر دئیے گئے۔ ان اشتہارات میں مرزاغلام احمد قادیانی کے حالات اور مرزائی مذہب کی تفصیلات کو ظاہر کیاگیا تھا۔ مسلمانوں کو ان اشتہارات سے کسی قدر