معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
مطلب یہ کہ زاہدوں کو حق تعالیٰ کے عاشقوں سے رابطہ قائم کرکے طریقِ عشق سے منزل طے کرنی چاہیے کیوں کہ عشق کا گھوڑا ہی یہ راستہ طے کرنے والا ہوتا ہے۔ حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ نے مثنوی شریف میں اس مقام کی یوں تشریح فرمائی ہے کہ ؎ سیر زاہد ہر مہے یک روزہ راہ سر عارف ہر دمے تا تخت شاہ اگر زاہدِ خشک ہر ماہ میں ایک دن کا راستہ طے کرتا ہے تو عاشقانِ حق ہر سانس میں عرش ِاعظم تک بہ فیض پروازِ محبت و دردِ عشق سیر کرتے رہتے ہیں۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی محبت کے لیے سالک کو چاہیے کہ اہلِ محبت کی (یعنی عاشقانِ حق کی) صحبت میں بیٹھا کرے۔ احقر کو اپنا ایک شعر یاد آیا ؎ زاہد سے کیا سنوں میں محبت کی داستاں الفاظ خشک میں ہے نہاں سر غم کہاں اس کامیابی کا راز یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا راستہ فنائیتِ کاملہ اور عبدیتِ کاملہ سے طے ہوتا ہے اور محبت ہی آدمی کے نخوت و خودی کو مٹادیتی ہے اور خودی کے مٹنے ہی سے خدا ملتا ہے۔ جس طرح چاند اس وقت روشن ہوتا ہے جب زمین سورج کے سامنے سے ہٹ جائے کیوں کہ سورج ہی کی روشنی سے چاند روشن ہوتا ہے ۔ یہ راستہ خودی کا نہیں ہے بے خودی کا ہے ؎ بے خودی میں یہ کبھی ممکن نہیں ہو خودی اہلِ خرد کی سربلند اخؔتر شیخِ کامل کا فیضان بھی اسی طالب پر مکمل ہوتا ہے جو اپنے نفس کو اور رائے کو مٹاکر شیخ کی رائے پر چلتا ہے ؎