معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
فیضان نسبتِ باطنی چہ دانی تو کہ در باطن چہ شاہ ہم نشیں دارم رخ زرین من منگر کہ پائے آہنیں دارم ترجمہ وتشریح:اے مخاطب ! تو میری اس باطنی نعمتِ عظمیٰ کو کیا جانتا ہے کہ میں باطن میں کیسے سلطان السلاطین اور احکم الحاکمین کو ہم نشین رکھتا ہوں ۔ میرے پیلے چہرے کو مت دیکھ کہ یہ مجاہداتِ عشقِ حق سے زریں ہورہا ہے ، میرے آہنیں پاؤں کو دیکھ (یعنی نسبت مع اﷲ کی طاقت کو غیر اہم مت سمجھ) ؎ جو دل پر ہم اس کا کرم دیکھتے ہیں تو دل کو بہ از جام جم دیکھتے ہیںحکایت حضرت شاہ فضل رحمٰن صاحب گنج مرادآبادی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی مجلس میں درس حدیث شریف دے رہے تھے کہ ایک مولوی صاحب رامپور سے نواب رامپور کے فرستادہ و قاصد بن کر آئے اور کچھ موقع پاکر عرض کیا کہ حضرت!آپ کو نواب صاحب نے یاد فرمایا ہے اور یہ پیغام کہلایا ہے کہ اگر شاہ صاحب تشریف لائیں تو ایک لاکھ روپیہ نذرانہ پیش کروں گا۔ ارشاد فرمایا:ارے ظالم! ایک لاکھ روپیہ پر ڈالو خاک، میری بات سنو جو میں کہہ رہا ہوں۔ یعنی اﷲ تعالیٰ کی محبت کی گفتگو کے سامنے یہ کیا پیش کردیا ، پھر یہ شعر مست ہوکر پڑھا ؎ جو دل پر ہم اس کا کرم دیکھتے ہیں تو دل کو بہ از جام جم دیکھتے ہیں گہے خورشید را مانم گہے دریائے پُردُر را درون دل فلک دارم برون دل زمیں دارم