معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
بے عنایت ہائے آں دریائے لطف از چنیں موجے بساحل کے رسی ترجمہ وتشریح:اے طالب! اس دریائے لطف خداوندی کی عنایت کے بغیر تو نفس و شیطان کی پُرخوف موجوں سے امن کے ساحل تک کب پہنچ سکتا ہے۔ از مرگ چوں اندیشی چوں جان بقا داری در گور کجا گنجی چوں نور خدا داری ترجمہ وتشریح:اے طالب! تو موت سے کیوں اندیشہ کرتا ہے جب کہ تیری روح تعلق مع اﷲ کے نور سے باقی باﷲ ہوچکی ہے اور تیرا جسم تو قبر میں سما سکتا ہے لیکن تیری روح کے اندر جو نورِ خدا ہے وہ قبر میں کس طرح سما سکتا ہے۔ وہ نور تو آسمانوں اور زمینوں کی وسعت میں بھی نہیں سماسکتا ۔ پس تو اس دولت نورِ خدا کے ہوتے ہوئے قبر سے کیوں گھبراتا ہے یعنی تیری روح نور خدا کے ساتھ علیین میں ابرار و صالحین کے ساتھ ہوگی پھر قبر کی تنہائی تیرے لیے باعث وحشت کیوں ہوگی۔ خوش باش کزیں عالم گر ہیچ نہ داری تو خود جملہ تو می داری گر دلبر ما داری ترجمہ وتشریح:اے طالب خدا! تو خوش ہوجا کہ اگر دنیا تیرے پاس نہیں ہے تو مالک اور خالق دنیا تو تیرے پاس ہے پس جب خالق کائنات تیرے پاس ہے تو پھر یوں سمجھ کہ جملہ کائنات بھی تیرے پاس ہے۔خطابات از زاہدانِ خشک کہ از صوفیائے کرام نفور باشند ہمرنگ جماعت شو تا لذت جاں بینی در کوئے خرابات آ تا درد کشاں بینی