معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
یہ دنیا والے تو بے وفا ہیں وفا کی قیمت سے بے خبر ہیں پھر ان کو دل دے کے زندگی کو جفا سے آہنگ کیوں بناؤں یہ بت جو محتاج ہیں سراپا غلام ان کا بنوں تو کیوں کر غلام کا بھی غلام بن کر میں اپنی قیمت کو کیوں گھٹاؤں یہ مانا ہم نے چمن میں خوش رنگ گل سے بلبل ہے مست و شیدا مگر نشیمن جو عارضی ہو تو اس کو مسکن میں کیوں بناؤں مجھے تو اخؔتر سکون دل گر ملا تو بس اہل دل کے در پر تو ان کے در کو میں اپنا مسکن صمیم دل سے نہ کیوں بناؤںمعارف و حقائق کلمۂ لا الٰہ ما ز بالائیم و بالا می رویم ما ز دریا ایم و دریا می رویم ہم عالمِ ارواح سے عالمِ دنیا میں اتارے گئے ہیں اسی لیے ہماری ارواح کا میلان عالمِ بالا کی طرف ہونے کے سبب ہم عالمِ بالا کی طرف جاتے ہیں۔ یعنی حق تعالیٰ کا قرب و رضا تلاش کرتے ہیں ؎ نہ ہم جادہ نہ ہم محمل نہ ہم منزل سمجھتے ہیں رضا جوئی کو تیری زندگیٔ دل سمجھتے ہیں عالمِ بالا کی طرف جانے سے مراد حق تعالیٰ کے قرب او ر اعمالِ قرب کی تلاش ہے۔ ما از آنجا و ازیں جا نیستم ما ازینجائیم و آنجا می رویم