معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
چوں زنم دم کاتشِ دل تیز شد شیرِ ہجراں شفتہ و خونریز شد اس شعر کی وضاحت میں یہ شعر سامنے رکھیے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ میں کس طرح خاموش رہوں اور آہ و نالہ نہ کروں کیوں کہ دل کی آگ تیز ہوگئی ہے اور جدائی کا دودھ جوش ماررہا ہے اور خونریز ہورہا ہے۔ پس شعرِ مذکور کے دوسرے مصرعہ میں جس دودھ کا ذکر ہے اس سے مراد شیرِ ہجراں ہے ۔ یعنی ہماری روح عالم ارواح سے دور اس کائنات میں جب سے آئی ہے وہ حق تعالیٰ کے عالمِ قرب کو یاد کرکے رو رہی ہے کیوں کہ ہر شئے اپنے اصل مرکز کی طرف رجوع کرتی ہے ؎ ہرکسے کو دور ماند از اصلِ خویش باز جوید روزگار وصلِ خویش جوشخص کہ اپنے اصل سے دور ہوتا ہے پھر اس اصل کے وصل کا متلاشی رہتا ہے۔ عاشق کا خون پینا اور اس کے دل کا خون ہونا یہ اشارہ ہے اس طرف کہ حق تعالیٰ کی راہ میں سالک اپنی اس آرزو کو خون کرتا ہے جو مرضیٔ حق کے خلاف ہوتی ہے۔ احقر نے اس مقام کو جہادِاکبر کی شہادت سے تعبیر کیا ہے ،کیوں کہ حدیث شریف میں کفار سے لڑنے کو جہادِ اصغر اور اپنے نفس سے مقابلے کو جہادِ اکبر فرمایا گیا ہے۔ بس جو شخص اپنی آنکھوں کو حسینوں سے بچاتا ہے اور قلب کو ان کے خیالات سے محفوظ رکھتا ہے یعنی اپنے قصد و ارادے سے ان کے تصورات میں مشغول نہیں ہوتا وہ عنداﷲ جہادِ اکبر کا شہید ہے ۔ اسی مقام کو احقر نے اس شعر میں عرض کیا ہے ؎ ترے حکم کی تیغ سے میں ہوں بسمل شہادت نہیں میری ممنونِ خنجراحتراز از نا اہل درخواست مکن خواجہ من با تو نمی گویم من مردہ نمی شویم من خار نمی کارم