معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
عقل در شرحش چو خر در گل بہ خفت شرحِ عشق و عاشقی خود عشق گفت گرچہ تفسیرِ زباں روشن گرست لیک عشقِ بے زباں روشن ترست ترجمہ:عقل نے عشق کی شرح شروع کی تھی کہ عاجز ہوکر مٹی میں مثل گدھے کے سوگئی یعنی عناصر کے تقاضوں سے مغلوب ہوکر حُبِّ دنیا میں پھنس گئی اور عشق اور عاشقی کی شرح خود عشق نے بیان کرنا شروع کردیا۔عذابِ عشقِ مجازی مگر عشقِ مجازی کا مریض مثل دوزخی کے نہ زندہ رہتا ہے نہ مرتا ہے موت اور حیات کے درمیانلَایَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰی کا عذاب چکھتا رہتا ہے۔ خدائے پاک کافر کو بھی یہ عذاب نہ دے ؎ ایں چنیں اندوہ کافر را مباد دامنِ رحمت گرفتم داد داد ترجمہ:اے خدا ! ایسا غم کافر کو بھی نہ دے تیری رحمت کا دامن پکڑ کر تجھ سے فریاد کرتا ہوں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ عشقِ مجازی عذاب ہے عذاب۔ اگر عشقِ مجازی سے توبہ کرلے اور اہل اﷲ کی صحبت میں رہ کر اﷲ تعالیٰ کا ذکر شروع کردے تو ایسا محسوس ہوگا کہ مچھلی پانی سے دور ہو کر جو تپتی ریت میں تڑپ رہی تھی پھر کسی نے پانی میں ڈال دیاتو کیسی حیاتِ نو اسے معلوم ہوگی۔ ہمارے حضرت شیخ فرمایا کرتے تھے کہ پیر وہ ہے جو دل کی پیرا نکال دے یعنی کانٹا نکال دے۔ اگر عشقِ مجازی سے توبہ کرنے میں قلب و روح کو اس قدر تکلیف ہو کہ موت آجاوے تو وہ شہید ہوگا ۔ حدیث میں وارد ہے کہ جو عاشق ہوجاوے کسی پر اور اس کو