معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
سامنے زانوئے ادب نہ تہہ کرے۔ غنچہ کو یہ شان و شوکت محفلوں میں جو حاصل ہورہی ہے (کہ بڑے بڑے معزز لوگوں کی گردنوں میں پھولوں کے ہار پڑے ہوئے ہیں)یہ نسیم سحر کے فیضان ہی کا اثر ہے جس نے چمن میں کلیوں کو شگفتہ کیا۔ علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر اس مقام کے خوب مناسب حال ہے ؎ بوئے گل سے یہ نسیم سحری کہتی ہے حجرۂ غنچہ میں کیا کرتی ہے آ سیر کو چل شبلی نعمؔانیدر فوائدِ تاخیرِکامیابی و کلفتِ انتظار ہر کہ بہر تو انتظار کند بخت اقبال را شکار کند ترجمہ و تشریح: جو شخص کہ طریق میں تعجیل نہ کرے اور خدائے پاک کے فضل ورحمت کاامیدوارومنتظررہتےہوئےذکروفکرمیں لگارہےتودراصل اس شخص کانصیبہ اقبال مندی کا شکار کرتا ہے۔ بہر باراں چو دشت منتظر ست سنگ را لعل آبدار کند ترجمہ و تشریح: وادی دشت و کوہ جب بارش کا انتظار کرتی ہے تو فیضانِ رحمتِ باراں سنگ کو لعل آبدار کردیتا ہے ۔ پس سالک کو بھی انتظارِ رحمت و فضل کرنا چاہیے تاخیرِ عطا سے جلد شکستہ و آزردہ نہ ہونا چاہیے۔ بس کام میں لگا رہے ثمرہ کی طرف توجہ ہی نہ کرے کہ اس راہ میں توفیقِ ذکر خود ثمرۂعظمیٰ ہے ۔ کیا یہ معمولی انعام ہے کہ ہماری زبان سے ان کا نام پاک جاری ہو اور جب کہ ہر اﷲ کہنے کے اندر حق تعالیٰ کی طرف سے اسی میں بہت سے لبیک بھی پوشیدہ ہیں ؎