معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
اور کبھی میرا دل سپر بنتا ہے اور اس پر دوسروں کے تیر لگتے ہیں ۔ مصرعۂ اولیٰ میں مولانا نے اپنا کمال فیضِ باطنی فرمایا ہے کہ فیض شمس سے میرا قلب اب دوسروں کو صاحبِ نسبت بنارہا ہے اور مصرعۂ ثانیہ میں مولانا نے اپنا صبر و تحمل ملامت خلق کے مقابلے میں بیان فرمایا ہے کہ تیر طعن خلائق کے سامنے میرا قلب سپر بھی بنا ہوا ہے۔ آنجا کہ عشق آمد جان را چہ محل باشد ہر عقل کجا پرد آنجا کہ جنوں باشد ترجمہ و تشریح: جب عشق اپنا اثرِ کامل کسی دل پر کرلیتا ہے تو پھر جان کی محبت باقی نہیں رہتی جیسا کہ حضرات صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم بے دریغ، بے جگری سے جنگ لڑ کر شہید ہوتے تھے اور روایت میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے تیر لگا تو حالت وجد میں فرمایا:فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ ربِّ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہوگیااور ہر عقل کہاں اڑتی ہے لیکن جب دیوانگی اپنا اثر دکھاتی ہے ؎ منڈلائے ہوئے جب ہر جانب طوفان ہی طوفاں ہوتے ہیں دیوانے کچھ آگے بڑھتے ہیں اور دست و گریباں ہوتے ہیں سیمرغ دلِ عاشق در دام کجا گنجد پرواز چنیں مرغے از کون بروں باشد ترجمہ و تشریح: عاشقِ حق کا دل مثل سیمرغ کے کسی جال میں پھنس نہیں سکتا۔ جالوں میں چھوٹی چڑیاں پھنسا کرتی ہیں سیمرغ تو جال ہی کو پھاڑ ڈالے گا۔ اسی طرح جو لوگ اﷲ والوں کو جال میں پھنسانا چاہتے ہیں ان کا جال ہی پھٹ جاتا ہے۔حکایت دامنِ کوہ کا ایک ذرّہ از راہ تکبر بولا کہ اے پہاڑ! میں تجھے اپنی ترازو میں آزمانا چاہتا ہوں۔پہاڑ نے کہا کہ اے ذرۂبے وقوف! اگر تو مجھے ترازو میں رکھے گا تو تیری ترازو پھٹ جائے گی ؎