معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
من بمردم زیں حیاتِ منقضی تا حیات باقیم در پے رسد ترجمہ وتشریح:میں نے اپنے نفس کو مردہ کرلیا ہے یعنی اس حیاتِ فانی کے تقاضائے شہوانیہ کو مغلوب کالعدم کردیا پس میں زندہ رہتے ہوئے بھی گویا مردہ ہوں لیکن یہ افنائے نفس چوں کہ حق تعالیٰ کی مرضی کے لیے ہے جو باقی ذات ہے لہٰذا یہ فنا سبب بقا کا ہوگیا: مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَاعِنْدَ اللہِ بَاقٍ جس نے مَا عِنْدَکُمْکو مَاعِنْدَ اللہِ پر فدا کردیا وہ اور اس کا فدا کردہ سب باقی ہوگیا۔ وہ ایسے باقی ہیں کہ ان سے تعلّقِ کامل رکھنے والابھی دولتِ بہارِ لازوال باقیہ سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ عاشقاں پیدا و دلبر ناپدید در ہمہ عالم چنیں عشقے کہ دید ترجمہ وتشریح:عاشقانِ خدا تو ظاہر ہیں اورمحبوبِ حقیقی حق تعالیٰ شانہٗ مستور ہیں۔ کائنات میں ایسا عشق کس نے دیکھا ہے یعنی ہمارے اعمال وضو، نماز، روزہ، حج اور جہاد وغیرہ تو ظاہر ہیں اور جن کے لیے ہمارے جان و مال فدا ہوتے ہیں وہ ذاتِ پاک نگاہوں سے مخفی ہے۔ بجز اس عشقِ حقیقی کے دنیا میں ایسے عشق کی کوئی مثال نہیں ملتی کہ محبوب کو دیکھے بغیر اس پر جان و مال فدا کیے جاتے ہوں۔آثارِ غمِ محبوبِ حقیقی نارسیدہ یک لبے بر لعل دوست صد ہزاراں روح بر لب ہا رسید ترجمہ وتشریح:محبوبِ حقیقی تک نارسائی کے سبب سو ہزار روحیں شدتِ غمِ فراق سے عاشقوں کے لبوں تک پہنچ گئیں۔