معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
پر بعض صوفیا بوقتِ ذکر کوئی رومال چہرہ اور سر پر ڈال لیتے ہیں اور بعض صوفیا حجرہ بند کرکے ذکر کا معمول رکھتے ہیں۔مقامِ غمِ عشق و آہِ دل خود کیست اندر راہِ دل کو را نباشد آہِ دل کار آں دلے دارد کہ او غرقابۂ اﷲ شد ترجمہ وتشریح: جس قلب کو آہ کا مقام حاصل نہیں یعنی جس سینے میں دل درد آشنا نہیں اور شدّت درد سے خوگر آہ نہیں وہ دل اس لائق نہیں کہ محبوب اس میں راہ کرسکے ، وہ دل اس کام کے لیے لائق ہوتا ہے جو اﷲ تعالیٰ کی محبت میں غرق ہوجاوے ؎ آہ کو نسبت ہے کچھ عشاق سے آہ نکلی اور پہچانے گئے آہ سے راز چھپایا نہ گیا منہ سے نکلی مرے مضطر ہوکر چوں غرقِ دریا می شوی دریات برسر می نہد چوں یوسفے چاہے کہ او از چاہ سوئے جاہ شد ترجمہ و تشریح: جب تو دریا میں غرق ہوجاتا ہے تو دریا تجھے اپنے سر پر رکھتا ہے اور جب سیدنایوسف علیہ السلام کنویں میں ڈالے گئے تو وہ چاہ (کنواں)ان کی جاہ کا سبب بن گیا۔ مطلب یہ کہ جس فنائیت سے تو ڈرتا ہے وہی تیری بقا کا سبب ہے ؎ قال را بگذار مردِ حال شو پیش مرد ِ کاملے پامال شو رومؔی