معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
اﷲ والوں کے اس ربطِ پیہم کو احقر نے اس شعر میں عرض کیا ہے ؎ میرا پیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لامکاں اے مری آہِ بے نوا تو نے کمال کردیا اپنا ایک شعر اور یاد آیا ؎ مبارک تجھے اے مری آہِ مضطر کہ منزل کو نزدیک تر لارہی ہےدر بیانِ عشقِ مرشد شمس تبریز ہر کہ بے تو بزیست عذر او پیش خلق لنگ آمد ترجمہ وتشریح:اے شمس تبریز! آپ کی صحبت اور محبت کے بغیر جو زندگی گزارتا ہے وہ کتنا ہی عذر پیش کرے عدیم الفرصتی کا مگر مخلوق میں آ پ کی ایسی مقبولیت ہے کہ مخلوق اس کے ہر عذر کو عذرِ نامعتبر قرار دے دے گی۔ اس شعر میں مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے ان جذباتِ محبت کا ا ور اس تعلّق کا اظہار کیا ہے جو ان کو اپنے مرشد حضرت شمس تبریزرحمۃ اللہ علیہ سے والہانہ تھا ؎ شمس و قمر کی روشنی دہر میں ہے ہوا کرے مجھ کو تو تم پسند ہو اپنی نظر کو کیا کروں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے یہ دو شعر اس وقت یاد آرہے ہیں نعت کے۔ عجیب والہانہ مضامین سے پُر ہیں اور بہت مشہور ہیں ؎ لَنَا شَمْسٌ وَّلِلْاٰفَاقِ شَمْسٌ وَ شَمْسِیْ خَیْرٌ مِّنْ شَمْسِ السَّمَآءِ