معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
واں دل کہ ز دامِ عشق دو ر است بازے باشد کہ پر ندارد جو دل کہ محبتِ حق کے دام سے دور ہے وہ اس باز کے مانند ہے جس کے پر نہ ہوں ۔ حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اعمالِ صالحہ کرنے اور گناہوں سے بچنے کی ہمت حق تعالیٰ کی محبت سے پیدا ہوتی ہے۔ پس محبت ایک انجن ہے جو اعمال کے ڈبوں کو لے کر تیز چلتا ہے اور محبت نہ ہو تو اس کی مثال اس موٹر کی ہے جس میں پیٹرول نہ ہو۔ اوّل نظر ار چہ سرسری بود سرمایۂ ناز دلبری بود ترجمہ وتشریح:پہلی نظر اگرچہ سرسری بھی کسی حسین پر پڑجاوے لیکن وہ نظر ناز دلبری کا سرمایہ ہوتی ہے ۔ پس سرسری نظر سے بھی بدنگاہی تباہ کردیتی ہے اور سینے سے دل کو غائب کردیتی ہے اور سینہ بے دل بے چین و سکون ہوتا ہے۔ حضرت سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ خواہی کہ بکس دل نہ دہی دیدہ بہ بند ترجمہ: اگر تو چاہتا ہے کہ اپنا دل کسی کو نہ دے اور بچا کے رکھے تو آنکھ حسینوں سےبند کرلے۔در بیانِ سوزِ غمِ عاشقاں آہ کہ بارِ دگر آتشے درمن فتاد ویں دل بیخود شدہ روئے بصحرا نہاد ترجمہ وتشریح:آہ کہ پھر آتشِ عشقِ حقیقی نے دل کو شوقِ وصال سے مضطر کیا اور یہ دل بے خود ہوکر صحرا کی طرف رخ کر گیا۔ مراد وہ کیفیات و حالاتِ خاصہ ہیں جو سالکین کے قلوب پر حق تعالیٰ کی رحمت سے وارد کیے جاتے ہیں اور اس جذبِ حق سے حق تعالیٰ کا راستہ طے ہوتا ہے ؎