معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
علیہا السلام خاموش اور غیر قادر الکلام ہوجاتا ہوں۔ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نومولود شیر خوار تھے اور بطور معجزہ کلام فرمایا اور حضرت مریم علیہا السلام نے باوجود قدرۃ علی الکلام کے خود سراپا بے زبان ہوکر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ جواب دیں گے ، اس بچے سے دریا فت کرو۔ چوں شدم جوشیدہ اندر غرق عشق درد و چشم عاشقانش یم شدم ترجمہ وتشریح:جب دریائے عشق حقیقی میں غرق ہوگیا تو حق تعالیٰ کے عاشقوں کی نظر میں سمندر (بحر بے کراں) ہوگیا۔ جس مٹکے کو سمندر سے خفیہ تعلق ہو تو جیحون و فرات جیسے بڑے بڑے دریائے شیر اس مٹکے کے سامنے زانوئے ادب طے کرتے ہیں۔ عید جانم شمس تبریزی بدست عید را قربانی اعظم شدم ترجمہ وتشریح:میری روحانی عید حضرت شیخ شمس الدین تبریزی رحمۃ اﷲ علیہ کی ملاقات ہے اور اپنے شیخ پر فدا ہونا ہے۔ مراد یہ کہ شیخ کے سامنے میں نے نفس کو مٹادیا۔ اس شعر کی وضاحت کے لیے احقر کی یہ نظم ملاحظہ ہو جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدائے پاک کے عاشقین اور مقبولین کی صحبت اور دوستی سے سکون ملتا ہے اور دنیاداروں کی دوستی عارضی اور خود غرضی و بے وفائی پر مبنی ہوتی ہے اور چوں کہ وہ خود بے سکون ہوتے ہیں اس لیے ان کے قلب کا عکس ان کے پاس والوں پر بھی بے سکونی پیدا کرتا ہے۔سکونِ دل در مجلسِ اہلِ دل سوائے تیرے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے یارب جدھر بھی جاؤں کسے غمِ جان و دل سناؤں کسے میں زخمِ جگر دکھاؤں