معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
حکایت حضرت شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ درسِ بخاری شریف میں مصروف تھے۔ ایک مولوی صاحب نواب رامپور کے مقرب تھے وہ بھی مجلس میں حاضر تھے ۔ درمیان میں عرض کرنے لگے کہ حضرت ! نواب رامپور نے مجھ سے کہا ہے کہ شاہ صاحب کو میرے یہاں لاؤ میں ایک لاکھ روپیہ نذرانہ پیش کروں گا۔ حضرت کی روحِ مبارک اس وقت حق تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے استحضار کے ساتھ ارشادات رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی شرح سے پُر کیف تھی۔ بڑی مملکت کے سفیر کی بھی عظمت ہوتی ہے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم احکم الحاکمین کے سفیر و رسول ہیں اور سید الرسل ہیں۔ اﷲ ورسول کی قدر ان کے عاشقین ہی جانتے ہیں ۔شاہ صاحب نے ان کو جواب دیا کہ ارے لاکھ روپے پر ڈالو خاک اور میری بات کو غور سے سنو کہ میں اس وقت کیا کہہ رہا ہوں ۔ پھر مست ہوکر یہ شعر پڑھا ؎ جو دل پہ ہم اس کا کرم دیکھتے ہیں تو دل کو بہ از جام و جم دیکھتے ہیں دل کی گہرائی سے ان کا نام جب لیتا ہوں میں چومتی ہے میرے قدموں کو بہار کائنات اخؔتربدون عشقِ حقیقی روحِ انسانی ماہیِٔ بے آب ہے ہر کہ بجز عاشقاں ماہئے بے آب واں مردہ و پژ مردہ است گر چہ امیر و وزیر ترجمہ وتشریح:جو شخص کائنات میں عاشقِ حق نہ ہو اور جس کی روح حق تعالیٰ کے قرب سے مشرف نہ ہوئی وہ بس دنیائے مردار پر مثل کرگس گرا رہا ، اس کی روح امیر اور وزیر