معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
غوطہ کھانے کا موقع ہاتھ لگے۔ (سبو سے مراد یہاں بھی متاع ہستی ہے) اہل ذوق اور اہل محبت اس اختصار ہی سے تفصیل کا لطف حاصل کرسکتے ہیں ؎ خموش کردم اگر چند کو تہ ہست غزل گہے خطاب شنیدن نہ گفتن ست نکو ترجمہ وتشریح:میں اب خاموش ہوگیا اگرچہ یہ غزل مختصر رہ گئی لیکن کبھی محبوب سے خطاب سننا بہتر ہوتا ہے خود بولنے سے۔اشعار منتخب آں چشم شوخش را نگر مست از خرابات آمدہ در قصد خون عاشقاں اندر کمر دامن زدہ ترجمہ وتشریح:مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میرے مرشد شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی مست پُرخمار آنکھیں تو دیکھو کہ عالم ھو سے کیا پی کر آئے ہیں ۔ یعنی ذکر اﷲ کے نشے سے کس قدر سرشار ہیں اور اپنے طالبین و عاشقین کو اپنی نگاہوں سے قتل کرنے کے لیے اپنی کمر کو دامن سے باندھے ہوئے ہیں۔ مراد یہ کہ اپنے طالبین و مریدین کو بھی خدائے پاک کی محبت کا درد عطا فرماکر خدا کا دیوانہ بنانا چاہتے ہیں۔ بعض اہل ظاہر کہتے ہیں کہ ذکر میں کیا نشہ ہوسکتا ہے تو واقعی جان ناکساں و محروماں کو یہی معلوم ہوتا ہے لیکن جب کسی اﷲ والے کی نظر پڑجائے اور کسی بزرگ کامل کی جوتیاں سیدھی کرنے کی توفیق ہوجائے تو معلوم ہوگا کہ اہل اﷲ کے پاس کیا کیف و سرور ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے تو تصوف سے بیگانہ تھے، صوفیائے کرام کی طرف التفات کو اپنے وقارِ علمی کے خلاف سمجھتے تھے لیکن تقدیر ان کو تھانہ بھون لائی اور شیخ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوکر ذکر و شغل شروع کیا ۔ پھر تو جو چاشنی اور لذت روحانی ملی اس کو خود ان ہی کی زبان سے سنیے ۔ یہ علامہ موصوف کے