معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
زندگی پُر کیف پائی گرچہ دل پُر غم رہا ان کے غم کے فیض سے میں غم میں بھی بے غم رہا عشق کے پَر کی تشریح کے لیے مثنوی رومی کا ایک شعر یاد آیا ؎ جاں مجرد گشتہ از غوغائے تن می پرد با پر دل بے پائے تن عارفین حق کی جانیں جسم کے ہنگاموں سے یکسو ہوکر حق تعالیٰ کی طرف اڑتی رہتی ہیں دل کے پروں سے بدون جسم کے پاؤں کے۔ پس عارف بیٹھا ہوا بھی سیر الی اﷲ کرتا رہتا ہے ۔لذّتِ وصال بوقتِ مرگ اے شاد آں زمانے کز بخت ناگہانے جاں بر کنار افتاد تن بر کنار ماند ترجمہ وتشریح:کیا ہی خوشی کا وقت ہوگا جب قسمت سے میری جان تن کے نفسِ عنصری سے علیٰحدہ ہوکر محبوبِ حقیقی سے واصل ہوگی۔ یہ شوق لقائے محبوب ہے جس کی دعا رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس عنوان سے مانگی ہے ۔ ’’ اے خدا !آپ سے آپ کی ملاقات کا شوق مانگتا ہوں۔‘‘حکایت حضرت محدث شیخِ کامل شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ شوق کے کیا معنیٰ ہیں؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا: شوق کے معنیٰ تڑپ کے ہیں۔ مولوی صاحب پر حال طاری ہواا ور چیخ چیخ کر رونے لگے۔ شاہ صاحب نے فرمایا:ارے مولوی ہوکر چلّاتے ہو! مطلب یہ تھا کہ حال شدت نہ اختیار کرے اور سکون ہوجاوے۔