معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
انہیں اظہا رِ حق میں اس طرح رہنا چاہیے ؎ سارا جہاں خلاف ہو پروا نہ چاہیے پیشِ نظر تو مرضیٔ جانا نہ چاہیے پھر اس نظر سے جانچ کے تو کر یہ فیصلہ کیا کیا تو کرنا چاہیے کیا کیا نہ چاہیے مجذؔوب لَا یَخَافُوۡنَ لَوۡمَۃَ لَآئِمٍ …الآیۃ حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے خاص بندوں کی یہی نشانی بیان فرمائی ہے کہ وہ نہیں ڈرتے ہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے ؎ اگر در آئی تو در درسِ شمس تبریزی بود نتیجۂ تحصیل ہر بقات فنا ترجمہ و تشریح: مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر تم میرے مرشد حضرت شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کے درسِ علم و معرفت و محبت میں شرکت کروگے تو تم کو اس وقت اپنی جن صفات پر ناز و فخر ہے صحیح نورِ علم عطا ہونے کے بعد ان کو مستعارِ حق سمجھ کر ان پر شکر کے ساتھ نیاز و فنائیت و عبدیت اختیار کروگے۔ مطلب یہ ہے کہ اﷲ والوں کی صحبت سے تکبر اور نخوت قلب سے نکل جاتی ہے جس سے دل نورانی ہوجاتا ہے۔ پھر یہ دل اﷲ تعالیٰ کے تعلقِ خاص کے قابل ہوجاتا ہے برعکس متکبر شیطان کا خاص قرین ہوتا ہے۔مقامِ بسط بعد القبض باز آمد آں مہے کہ ندیدش فلک بخواب آورد آتشے کہ نمیرد بہ ہیچ آب ترجمہ وتشریح: رفعِ قبضِ باطنی کے بعد مولانا فرماتے ہیں کہ پھر میرا وہ چاند یعنی محبوب ِحقیقی کا قرب و حضور دل میں عطا ہوا اور یہ لذّتِ قربِِ خداوندی ایسی لذت ہے