معارف شمس تبریز |
س کتاب ک |
|
جذبِ پنہانیِ ربانی بیا دلہا و جانہا را شہنشہ باز می خواند بیا کہ گلّہ را چوپاں بسوئے دشت می راند ترجمہ وتشریح:اے مخاطب! آ کہ دلوں اور جانوں کو شہنشاہِ حقیقی پھر اپنی محبت سے جذب فرما رہے ہیں یعنی اپنی طرف کھینچ رہے ہیں ؎ نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوقِ عریانی کوئی کھینچے لیے جاتا ہے خود جیب و گریباں کو اے مخاطب! آکہ چوپاں (چرواہا) جانوروں کے ریوڑ کو سیر کرانے اور کھلانے پلانے کے لیے جنگل کی طرف ہانک رہا ہے یعنی ہماری ارواح کو حق تعالیٰ ذکر و فکر کی توفیق دے کر کبھی مساجد اور اہل اﷲ کی مجالس کی طرف کھینچ رہے ہیں اور کبھی دامنِ کوہ و بیاباں اور صحرا نوردی کی طرف نعرۂعشق و دیوانگی اور گریۂ محبت کے لیے کھینچ رہے ہیں ؎ خدا کی یاد میں بیٹھے جو سب سے بے غرض ہوکر تو اپنا بوریا بھی پھر ہمیں تختِ سلیماں تھا احقر کے تین اشعار ملاحظہ ہوں ؎ گرچہ میں دور ہوگیا لذّت ِ کائنات سے حاصلِ کائنات کو دل میں لیے ہوئے ہوں میں لذّتِ دو جہاں ملی اس کے کلام سے مجھے اس کے قرین بیٹھ کر راحتِ دو جہاں ملی دل کی گہرائی سے ان کا نام جب لیتا ہوں میں چومتی ہے میرے قدموں کو بہار کائنات ان اشعار میں احقر نے اﷲ والوں کی روحانی لذت کو بیان کیا ہے جو ان کو حق تعالیٰ کے